وَإِن كَذَّبُوكَ فَقُل لِّي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ ۖ أَنتُم بَرِيئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِيءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ
اور اگر یہ (اس قدر سمجھانے پر بھی) تجھے جھٹلائیں تو کہہ دے میرے لیے میرا عمل ہے، تمہارے لیے تمہارا، میں جو کچھ کرتا ہوں اس کی ذمہ داری تم پر نہیں، تم جو کچھ کرتے ہو، اس کے لیے میں ذمہ دار نہیں (ہر شخص کے لیے اس کا عمل ہے اور عمل کے مطابق نتیجہ، پس تم اپنی راہ چلو، مجھے اپنی راہ چلنے دو، اور دیکھو اللہ کا فیصلہ کیا ہوتا ہے)
مشرکین سے اجتناب فرما لیجئے فرمان ہوتا ہے کہ ’ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر یہ مشرکین تجھے جھوٹا ہی بتلاتے رہیں تو تو ان سے اور ان کے کاموں سے اپنی بیزاری کا اعلان کر دے ۔ اور کہہ دے کہ «فَقُلْ لِی عَمَلِی وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ» تمہارے اعمال تمہارے ساتھ میرے اعمال میرے ساتھ ‘ ۔ جیسے کہ وہ سورۃ «قُلْ یَا أَیٰہَا الْکَافِرُونَ» ۱؎ (109-الکافرون) میں بیان ہوا ہے ، اور جیسے کہ خلیل اللہ علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کے ساتھیوں نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ «إِنَّا بُرَآءُ مِنکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللہِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّیٰ تُؤْمِنُوا بِ اللہِ وَحْدَہُ» ۱؎ (60-الممتحنۃ:4) ’ ہم تم سے اور تمہارے معبودوں سے بیزار ہیں ، جنہیں تم نے اللہ کے سوا اپنا معبود بنا رکھا ہے ‘ ۔ ان میں سے بعض تیرا پاکیزہ کلام بھی سنتے ہیں اور خود اللہ تعالیٰ کا بلند و بالا کلام بھی ان کے کانوں میں پڑ رہا ہے ۔ لیکن ہدایت نہ تیرے ہاتھ نہ ان کے ہاتھ گو یہ فصیح و صحیح کلام دلوں میں گھر کرنے والا ، انسانوں کو پورا نفع دینے والا ہے ۔ یہ کافی اور وافی ہے لیکن بہروں کو کون سنا سکے ؟ یہ دل کے کان نہیں رکھتے ۔ اللہ ہی کے ہاتھ ہدایت ہے ۔ یہ تجھے دیکھتے ہیں ، تیرے پاکیزہ اخلاق ، تیری ستھری تعلیم تیری نبوت کی روشن دلیلیں ہر وقت ان کے سامنے ہیں لیکن ان سے بھی انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ۔ مومن تو انہیں دیکھ کر ایمان بڑھاتے ہیں ۔ لیکن ان کے دل اندھے ہیں عقل و بصیرت ان میں نہیں ہے ۔ مومن وقار کی نظر ڈالتے ہیں اور یہ حقارت کی ۔ ہر وقت ہنسی مذاق اڑاتے رہتے ہیں ۔ پس اپنے اندھے پن کی وجہ سے راہ ہدایت دیکھ نہیں سکتے ۔ اس میں بھی اللہ کی حکمت کار ہے کہ ایک تو دیکھے اور سنے اور نفع پائے دوسرا دیکھے سنے اور نفع سے محروم رہے ۔ اسے اللہ کا ظلم نہ سمجھو وہ تو سراسر عدل کرنے والا ہے ، کسی پر کبھی کوئی ظلم وہ روا نہیں رکھتا ۔ لوگ خود اپنا برا آپ ہی کر لیتے ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ «وَإِذَا رَأَوْکَ إِن یَتَّخِذُونَکَ إِلَّا ہُزُوًا أَہٰذَا الَّذِی بَعَثَ اللہُ رَسُولًا إِن کَادَ لَیُضِلٰنَا عَنْ آلِہَتِنَا لَوْلَا أَن صَبَرْنَا عَلَیْہَا وَسَوْفَ یَعْلَمُونَ حِینَ یَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ أَضَلٰ سَبِیلًا» ۱؎ (25-الفرقان:41 ، 42) { اللہ عزوجل اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی فرماتا ہے کہ «یا عِبَادِی إنی حَرَّمْتُ الظٰلْمَ علی نَفْسِی وَجَعَلْتُہُ بَیْنَکُمْ مُحَرَّمًا فلا تَظَالَمُوا ، یا عِبَادِی ، إنما ہِیَ أَعْمَالُکُمْ أُحْصِیہَا لَکُمْ ، ثُمَّ أُوَفِّیکُمْ إِیَّاہَا ، فَمَنْ وَجَدَ خَیْرًا فَلْیَحْمَدْ اللہَ ، وَمَنْ وَجَدَ غیر ذلک فلا یَلُومَنَّ إلا نَفْسَہُ» اے میرے بندو ! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کر لیا ہے اور تم پر بھی اسے حرام کر دیا ہے ۔ خبردار ایک دوسرے پر ظلم ہرگز نہ کرنا ۔ اس کے آخر میں ہے اے میرے بندو ! یہ تو تمہارے اپنے اعمال ہیں جنہیں میں جمع کر رہا ہوں پھر تمہیں ان کا بدلہ دونگا ۔ پس جو شخص بھلائی پائے وہ اللہ کا شکر بجا لائے اور جو اس کے سوا کچھ اور پائے وہ صرف اپنے نفس کو ہی ملامت کرے } ۔ (صحیح مسلم:2577)