سورة یونس - آیت 9

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُم بِإِيمَانِهِمْ ۖ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے تو ان کے ایمان کی وجہ سے (کامیابی و سعادت کی) راہ ان کا پروردگار ان پر کھول دے گا۔ ان کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی جبکہ وہ نعمت الہی کے باغوں میں ہوں گے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

خوش انجام خوش نصیب لوگ نیک بختوں کا حال بیان ہو رہا ہے جو اللہ پر ایمان لائے رسولوں کو مانا ، فرمانبرداری کی نیکیوں پر چلتے رہے ، انہیں ان کے ایمان کی وجہ سے راہ مل جائے گی ۔ پل صراط سے پار ہو جائیں گے ۔ جنت میں پہنچ جائیں گے ، نور مل جائے گا ، جس کی روشنی میں چلیں پھریں گے ۔ پس ممکن ہے کہ «بِإِیمَانِہِمْ» میں [ ب ] سبب کی ہو ، اور ممکن ہے کہ استعانت کی ہو ۔ ان کے اعمال اچھی بھلی صورت اور عطر و خوشبو بن کر ان کے پاس ان کی قبر میں آئیں گے اور انہیں خوشخبری دیں گے یہ پوچھیں گے کہ تم کون ہو ؟ وہ جواب دیں گے تمہارے نیک اعمال ۔ پس یہ اپنے ان نورانی عمل کی روشنی میں جنت میں پہنچ جائیں گے اور کافروں کا عمل نہایت بدصورت ، بدبو دار ہو کر اس پر چمٹ جائے گا اور اسے دھکے دے کر جہنم میں لے جائے گا ۔ یہ جو چیز کھانا چاہیں گے اسی وقت فرشتے اس تیار کر کے لائیں گے ۔ انہیں سلام کہیں گے جو جواب دیں گے اور کھائیں گے ۔ کھا کر اپنے رب کی حمد بیان کریں گے ۔ ان کے صرف «سبْحانَک اللَّہُمّ» کہتے ہی دس ہزار خادم اپنے ہاتھوں میں سونے کے کٹوروں میں کھانا لے کر حاضر ہو جائیں گے اور یہ سب میں سے کھائے گا ۔ ان کا آپس میں بھی تحفہ سلام ہو گا ۔ «تَحِیَّتُہُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَہُ سَلَـمٌ» ۱؎ (33-الأحزاب:44) ’ جس دن یہ اللہ سے ملاقات کریں گے ان کا تحفہ سلام ہوگا ‘ ، «لاَ یَسْمَعُونَ فِیہَا لَغْواً وَلاَ تَأْثِیماً» (56-الواقعۃ:25،26) ’ نہ وہاں بکواس سنیں گے اور نہ گناہ کی بات ، ‏ صرف سلام ہی سلام کی آواز ہو گی وہاں کوئی لغو بات کانوں میں نہ پڑے گی ‘ ۔ در و دیوار سے سلامتی کی آوازیں آتی رہیں گے ۔ رب رحیم کی طرف سے بھی سلامتی کا قول ہوگا ۔ «سَلاَمٌ قَوْلاً مِّن رَّبٍّ رَّحِیمٍ» ۱؎ (36-یس:58) ’ مہربان پروردگار کی طرف سے انہیں سلام کہا جائے گا ‘ ۔ ‏ فرشتے بھی ہر ایک دروازے سے آ کر سلام کریں گے ، «وَالمَلَـئِکَۃُ یَدْخُلُونَ عَلَیْہِمْ مِّن کُلِّ بَابٍسَلَـمٌ عَلَیْکُمُ» ۱؎ (13-الرعد:23 ، 24) ’ ان کے پاس فرشتے ہر دروازے سے آئیں گے ، کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو ‘ ، آخری قول ان کا اللہ کی ثناء ہوگا ۔ وہ معبود برحق ہے اول آخر حمد و تعریف کے سزاوار ہے ۔ اسی لیے اس نے اپنی حمد بیان فرمائی مخلوق کی پیدائش کے شروع میں ، اس کی بقاء میں ، اپنی کتاب کے شروع میں ، اور اس کے نازل فرمانے کے شروع میں ۔ اس قسم کی آیتیں قرآن کریم میں ایک نہیں کئی ایک ہیں جیسے «الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِی أَنْزَلَ عَلَی عَبْدِہِ الْکِتَـبَ» ۱؎ (18-الکہف:1) ’ تمام تعریفیں اسی اللہ کے لیے سزاوار ہیں جس نے اپنے بندے پر یہ قرآن اتارا ‘ ۔ «الْحَمْدُ للَّہِ الَّذِی خَلَقَ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْض» ۱؎ (6-الأنعام:1) ’ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لائق ہیں جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا ‘ ، وغیرہ ۔ وہی اول آخر دنیا عقبیٰ میں لائق حمد و ثناء ہے ہر حال میں اس کی حمد ہے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ { اہل جنت سے تسبیح و حمد اس طرح ادا ہوگی جیسے سانس چلتا رہتا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2835) یہ اس لیے کہ ہر وقت نعمتیں راحتیں آرام اور آسائش بڑھتا ہوا دیکھیں گے پس لامحالہ حمد ادا ہوگی ۔ سچ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، نہ اس کے سوا کوئی پالنہار ہے ۔