أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُونَ
(افسوس ان پر) کیا یہ نہیں دیکھتے کہ کوئی برس اس سے خالی نہیں جاتا کہ ایک مرتبہ یا دو مرتبہ آزمائش میں نہ ڈالے جاتے ہوں پھر بھی یہ ہیں کہ نہ تو توبہ کرتے ہیں نہ نصیحت پکڑتے ہیں۔
عذاب سے دوچار ہونے کے بعد بھی منافق باز نہیں آتا یہ منافق اتنا بھی نہیں سوچتے کہ ہر سال دو ایک دفعہ ضرور وہ کسی نہ کسی عذاب میں مبتلا کئے جاتے ہیں ۔ لیکن پھر بھی انہیں اپنے گزشتہ گناہوں سے توبہ نصیب ہوتی ہے نہ آئندہ کے لیے عبرت ہوتی ہے ۔ کبھی قحط سالی ہے ، کبھی جنگ ہے ، کبھی جھوٹی گپیں ہیں جن سے لوگ بیچین ہو رہے ہیں ۔ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کاموں میں سختی بڑھ رہی ہے ۔ بخیلی عام ہو رہی ہے ہر سال اپنے سے پہلے کے سال سے بد آ رہا ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7068) جب کوئی سورت اترتی ہے ایک دوسرے کی طرف دیکھتا ہے کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا ؟ پھر حق سے پلٹ جاتے ہیں نہ حق کو سمجھیں نہ مانیں ۔ وعظ سے منہ پھیرلیں اور ایسے بھاگیں جیسے گدھا شیر سے ۔ حق کو سنا اور دائیں بائیں کھسک گئے ۔ ان کی اس بےایمانی کا بدلہ یہی ہے کہ اللہ نے ان کے دل بھی حق سے پھیر دیئے ۔ ان کی کجی نے ان کے دل بھی ٹیرھے کر دیئے ۔ یہ بدلہ ہے اللہ کے خطاب کو بےپرواہی کر کے نہ سمجھنے کا اس سے بھاگنے اور منہ موڑ لینے کا ۔