وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُم مَّن يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَٰذِهِ إِيمَانًا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ
اور جب ایسا ہوتا ہے کہ (اللہ کی طرف سے) قرآن کی کوئی سورت اترتی ہے تو ان (منافقوں) میں کچھ لوگ ہیں جو (انکار و شرارت کی راہ سے) کہتے ہیں تم لوگوں میں سے کس کا ایمان اس نے زیادہ کردیا؟ تو حقیقت یہ ہے کہ جو ایمان رکھتے ہیں ان کا ایمان تو ضرور زیادہ کردیا اور وہ اس پر خوشیاں منار رہے ہیں۔
فرمان الہٰی میں شک و شبہ کفر کا مرض ہے قرآن کی کوئی سورت اتری اور منافقوں نے آپس میں کانا پھوسی شروع کی کہ بتاؤ اس سورت نے کس کا ایمان زیادہ کر دیا ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایمانداروں کے ایمان تو اللہ کی آیتیں بڑھا دیتی ہیں ۔ یہ آیت بہت بڑی دلیل ہے اس پر کہ ایمان گھٹتا بڑھتا رہتا ہے ۔ اکثر ائمہ اور علماء کا یہی مذہب ہے ، سلف کا بھی اور خلف کا بھی ۔ بلکہ بہت سے بزرگوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے ۔ ہم اس مسئلے کو خوب تفصیل سے شرح بخاری کے شروع میں بیان کر آئے ہیں ۔ ہاں جن کے دل پہلے ہی سے شک و شبہ کی بیماری میں ہیں ان کی خرابی اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔ قرآن مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے لیکن کافر تو اس سے اور بھی اپنا نقصان کر لیا کرتے ہیں ۔ ۱؎ (17-الإسراء:82) یہ ایمانداروں کے لیے ہدایت و شفاء ہے اور بے ایمانوں کے تو کانوں میں بوجھ ہے ۔ ان کی آنکھوں پر اندھاپا ہے وہ تو بہت ہی فاصلے سے پکارے جا رہے ہیں ۔ ۱؎ (41-فصلت:44) یہ بھی کتنی بڑی بدبختی ہے کہ دلوں کی ہدایت کی چیز بھی ان کی ضلالت و ہلاکت کا باعث بنتی ہے ۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے عمدہ غذا بھی بدمزاج کو موافق نہیں آتی ۔