وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ
اور (دیکھو) یہ ممکن نہ تھا کہ سب کے سب مسلمان (اپنے گھروں سے) نکل کھڑے ہوں (اور تعلیم دین کے مرکز میں آ کر علم و تربیت حاصل کریں) پس کیوں نہ ایسا کیا گیا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکل آئی ہوتی کہ دین میں دانش و فہم پیدا کرتی اور جب (تعلیم و تربیت کے بعد) اپنے گھروں میں واپس جاتی تو لوگوں کو (جہل و غفلت کے نتائج سے) ہوشیار کرتی تاکہ (برائیوں سے) بچیں؟
نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تنہا نہ چھوڑو اس آیت میں اس بیان کی تفصیل ہے جو غزوہ تبوک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلنے کے متعلق تھا ۔ سلف کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ جب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد میں نکلیں تو آپ کا ساتھ دینا ہر مسلمان پر واجب ہے ۔ جیسے فرمایا «اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِــقَالًا» ۱؎ (9-التوبہ:41) اور فرمایا ہے «مَا کَانَ لِأَہْلِ الْمَدِینَۃِ» ۱؎ (9-التوبہ:120) یعنی ہلکے بھاری نکل کھڑے ہو جاؤ ۔ مدینے اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو لائق نہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے رہ جائیں ۔ پس یہ حکم اس آیت سے منسوخ ہو گیا ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ قبیلوں کے نکلنے کا بیان ہے اور ہر قبیلے کی ایک جماعت کے نکلنے کا اگر وہ سب نہ جائیں ۔ تاکہ آپ کے ساتھ جانے والے آپ پر اتری ہوئی وحی کو سمجھیں اور واپس آ کر اپنی قوم کو دشمن کے حالات سے باخبر کریں ۔ پس انہی دونوں باتیں اس کوچ میں حاصل ہو جائیں گی ۔ اور آپ کے بعد قبیلوں میں سے جانے والی جماعت یا تو دینی سمجھ کے لیے ہو گی یا جہاد کے لیے ۔ کیونکہ یہ فرض کفایہ ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کے یہ معنی بھی مروی ہیں کہ مسلمانوں کو یہ چاہیئے کہ سب کے سب چلے جائیں اور اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا چھوڑ دیں ۔ ہر جماعت میں سے چند لوگ جائیں اور آپ کی جازت سے جائیں جو باقی ہیں وہ ان کے بعد جو قرآن اترے ، جو احکام بیان ہوں ، انہیں سیکھیں ۔ جب یہ آ جائیں تو انہیں سکھائیں پڑھائیں ۔ اس وقت اور لوگ جائیں ۔ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیئے ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ آیت ان صحابیوں رضی اللہ عنہم کے بارے میں اتری ہے جو بادیہ نشینوں میں گئے وہاں انہیں فوائد بھی پہنچے اور نفع کی چیزیں بھی ملیں ۔ اور لوگوں کو انہوں نے ہدایات بھی کیں ۔ لیکن بعض لوگوں نے انہیں طعنہ دیا کہ تم لوگ اپنے ساتھیوں کے پیچھے رہ جانے والے ہو ۔ وہ میدان جہاد میں گئے اور تم آرام سے یہاں ہم میں ہو ۔ ان کے بھی دل میں یہ بات بیٹھ گئی وہاں سے واپس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے آئے ۔ پس یہ آیت اتری اور انہیں معذور سمجھا گیا ۔ سیدنا قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لشکروں کو بھیجیں تو کچھ لوگوں کو آپ کی خدمت میں ہی رہنا چاہیئے کہ وہ دین سیکھیں اور کچھ لوگ جائیں اپنی قوم کو دعوت حق دیں اور انہیں اگلے واقعات سے عبرت دلائیں ۔ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بنفس نفیس جہاد کے لیے نکلیں ، اس وقت سوائے معذوروں ، اندھوں وغیرہ کے کسی کو حلال نہیں کہ آپ کے ساتھ نہ جائے اور جب آپ لشکروں کو روانہ فرمائیں تو کسی کو حلال نہیں کہ آپ کی اجازت کے بغیر جائے ۔ یہ لوگ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہتے تھے ، اپنے ساتھیوں کو جب کہ وہ واپس لوٹتے ان کے بعد کا اترا ہوا قرآن اور بیان شدہ احکام سنا دیتے پس آپ کی موجودگی میں سب کو نہ جانا چاہیئے ۔ مروی ہے کہ یہ آیت جہاد کے بارے میں نہیں بلکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلے مضر پر قحط سالی کی بد دعا کی اور ان کے ہاں قحط پڑا تو ان کے پورے قبیلے کے قبیلے مدینے شریف میں چلے آئے ۔ یہاں جھوٹ موٹ اسلام ظاہر کر کے صحابہ پر اپنا بار ڈال دیا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو متنبہ کیا کہ دراصل یہ مومن نہیں ۔ آپ نے انہیں ان کی جماعتوں کی طرف واپس کیا اور ان کی قوم کو ایسا کرنے سے ڈرایا ۔ کہتے ہیں کہ ہر قبیلے میں سے کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آتے ، دین اسلام دیکھتے ، واپس جا کر اپنی قوم کو اللہ ، رسول کی اطاعت کا حکم کرتے ، نماز ، زکوٰۃ کے مسائل سمجھاتے ، ان سے صاف فرما دیتے کہ جو اسلام قبول کر لے گا وہ ہمارا ہے ورنہ نہیں ۔ یہاں تک کہ ماں باپ کو بھی چھوڑ دیتے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں مسئلے مسائل سے آگاہ کر دیتے ، حکم احکام سکھا پڑھا دیتے وہ اسلام کے مبلغ بن کر جاتے ماننے والوں کو خوش خبریاں دیتے ، نہ ماننے والوں کو ڈراتے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:17489:ضعیف) عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب «إِلَّا تَنفِرُوا» ۱؎ (9-التوبۃ:39) الخ اور آیت «مَا کَانَ لِأَہْلِ الْمَدِینَۃِ» ۱؎ (9-التوبۃ:120) اتریں تو منافقوں نے کہا : ” پھر تو بادیہ نشین لوگ ہلاک ہو گئے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں جاتے “ ۔ بعض صحابہ بھی ان میں تعلیم و تبلیغ کے لیے گئے ہوئے تھے پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور« وَالَّذِینَ یُحَاجٰونَ فِی اللہِ » ۱؎ (42-الشوری:16) الخ ۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے ہیں وہ مشرکوں پر غلبہ و نصرت دیکھ کر واپس آ کر اپنی قوم کو ڈرائیں ۔