سورة التوبہ - آیت 113

مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پیغمبر کو اور ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں ایسا کرنا سزاوار نہیں کہ جب واضح ہوگیا یہ لوگ دوزخی ہیں تو پھر مشرکیوں کی بخشائش کے طلبگار ہوں اگرچہ وہ ان کے عزیز و اقارب ہی کیوں نہ ہوں۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ممانعت مسند احمد میں ہے کہ ابوطالب کی موت کے وقت اس کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لے گئے ۔ وہاں اس وقت ابوجہل اور عبداللہ بن ابی اُمیہ بھی تھا ۔ آپ نے فرمایا چچا «لا الہ الاللہ »کہہ لے اس کلمے کی وجہ سے اللہ عزوجل کے ہاں میں تیری سفارش تو کر سکوں ۔ یہ سن کر ان دونوں نے کہا کہ اے ابوطالب کیا تو عبدالمطلب کے دین سے پھر جائے گا ؟ اس پر اس نے کہا میں تو عبدالمطلب کے دین پر ہوں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خیر میں جب تک منع نہ کر دیا جاؤں تیرے لیے بخشش مانگتا رہونگا ۔ لیکن « مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَن یَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِکِینَ وَلَوْ کَانُوا أُولِی قُرْبَیٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُمْ أَصْحَابُ الْجَحِیمِ » ( التوبہ : 113 ) اتری ۔ یعنی نبی کو اور مومنوں کو لائق نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش مانگیں گو وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی ہوں ۔ ان پر تو یہ ظاہر ہو چکا ہے کہ مشرک جہنمی ہیں ۔ اسی بارے میں «اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ ۚوَہُوَ اَعْلَمُ بالْمُہْتَدِیْنَ» ( 28- القص : 56 ) بھی اتری ہے ۔ یعنی تو جسے محبت کرے اسے راہ نہیں دکھا سکتا بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے راہ دکھاتا ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کی زبانی اپنے مشرک ماں باپ کے لیے استغفار سن کر اس سے کہا کہ تو مشرکوں کے لیے استغفار کرتا ہے اس نے جواب دیا کہ کیا ابراہیم نے اپنے باپ کے لیے استغفار نہیں کیا ؟ فرماتے ہیں میں نے جا کر یہ ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ کہا جب کہ وہ مرگیا پھر میں نہیں جانتا یہ قول مجاہد کا ہے ۔ مسند احمد میں ہے ہم تقریباً ایک ہزار آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے ، آپ منزل پر اترے ، دو رکعت نماز ادا کی پھر ہماری طرف منہ کر کے بیٹھے ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے انسو جاری تھے ۔ عمر رضی اللہ عنہ یہ دیکھ کر تاب نہ لا سکے ، اُٹھ کر عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کیا بات ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بات یہ ہے کہ میں نے اپنے رب عزوجل سے اپنی والدہ کے لیے استغفار کرنے کی اجازت طلب کی تو مجھے اجازت نہ ملی ۔ اس پر میری آنکھں بھر آئیں کہ میری ماں ہے اور جہنم کی آگ ہے ۔ اچھا اور سنو ! میں نے تمہیں تین چیزوں سے منع کیا تھا اب وہ ممانعت ہٹ گئی ہے ۔ زیارت قبور سے منع کیا تھا ، اب تم کرو کیونکہ اس سے تمہیں بھلائی یاد آئے گی ۔ میں نے تمہیں تین دن سے زیادہ قربانی کے گوشت کو روکنے سے منع فرمایا تھا اب تم کھاؤ اور جس طرح چاہو روک رکھو ۔ اور میں نے تمہیں بعض خاص برتنوں میں پینے کو منع فرمایا تھا لیکن اب تم جس برتن میں چاہو پی سکتے ہیں لیکن خبردار نشے والی چیز ہرگز نہ پینا ۔ ابن جریر میں ہے کہ مکہ شریف آتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نشان قبر کے پاس بیٹھ گئے اور کچھ دیر خطاب کر کے آپ کھڑے ہوئے ہم نے پوچھا کہ یا رسول اللہ یہ کیا بات تھی ؟ آپ نے فرمایا میں نے اپنے پروردگار سے اپنی ماں کی قبر کے دیکھنے کی اجازت مانگی وہ تو مل گئی لیکن اس کے لیے استغفار کرنے کی اجازت مانگی تو نہ ملی ۔ اب جو آپ نے رونا شروع کیا تو ہم نے تو آپ کو کبھی ایسا اتنا روتے نہیں دیکھا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ آپ قبرستان کی طرف نکلے ، ہم بھی آپ کے ساتھ تھے ۔ وہاں آپ ایک قبر کے پاس بیٹھ کر دیر تک مناجات میں مشغول رہے ، پھر رونے لگے ۔ ہم بھی خوب روئے پھر کھڑے ہوئے تو ہم سب بھی کھڑے ہو گئے آپ نے عمر رضی اللہ عنہ کو اور ہمیں بلا کر فرمایا کہ تم کیسے روئے ؟ ہم نے کہا آپ کو روتا دیکھ کر آپ نے فرمایا یہ قبر میری ماں آمنہ کی تھی میں نے اسے دیکھنے کی اجازت چاہی تھی جو مجھے ملی تھی ۔ اور روایت میں ہے کہ دعا کی اجازت نہ ملی اور«مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَن یَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِکِینَ وَلَوْ کَانُوا أُولِی قُرْبَیٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُمْ أَصْحَابُ الْجَحِیمِ » اتری پس جو ماں کی محبت میں صدمہ ہونا چاہیئے مجھے ہوا ۔ دیکھو میں نے زیارت قبر کی تمہیں ممانعت کی تھی ۔ لیکن اب میں رخصت دیتا ہوں کیونکہ اس سے آخرت یاد آتی ہے ۔ طبرانی میں ہے کہ غزوہ تبوک کی واپسی میں عمرے کے وقت ثنیہ عسفان سے اترتے ہوئے آپ نے صحابہ سے فرمایا تم عقبہ میں ٹھہرو ، میں ابھی آیا ۔ وہاں سے اتر کر آپ اپنی والدہ کی قبر پر گئے ۔ اللہ تعالیٰ سے دیر تک مناجات کرتے رہے ۔ پھر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کیا آپ کے رونے سے سب لوگ رونے لگے اور یہ سمجھے کہ آپ کی امت کے بارے میں کوئی نئی بات پیدا ہوئی جس سے آپ اس قدر رو رہے ہیں ۔ انہیں روتا دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس پلٹے اور دریافت فرمایا کہ تم لوگ کیوں رو رہے ہو ؟ انہوں نے جواب دیا آپ کو روتا دیکھ کر اور یہ سمجھ کر کہ شاید آپ کی امت کے بارے میں کوئی ایسا نیا حکم اترا جو طاقت سے باہر ہے ۔ آپ نے فرمایا سنو بات یہ ہے کہ یہاں میری ماں کی قبر ہے ۔ میں نے اپنے پروردگار سے قیامت کے دن اپنی ماں کی شفاعت کی اجازت طلب کی لیکن اللہ تعالیٰ نے عطا نہیں فرمائی تو میرا دل بھر آیا اور میں رونے لگا ۔ جبرائیل آئے اور مجھ سے فرمایا ابراہیم کا استغفار اپنے باپ کے لیے صرف ایک وعدے سے تھا جس کا وعدہ ہو چکا تھا لیکن جب اس پر کھل گیا تو کہ اس کا باپ اللہ کا دشمن ہے توہ وہ فوراً بیزار ہو گیا پس آپ بھی اپنی ماں سے اسی طرح بیزار ہو جائیے جس طرح ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ سے بیزار ہو گئے ۔ پس مجھے اپنی ماں پر رحم اور ترس آیا ۔ پھر میں نے دعا کی کہ میری امت پر سے چاروں سختیاں دور کر دی جائیں اللہ تعالیٰ نے دو تو دور فرما دیں لیکن دو کے دور فرمانے سے انکار فرما دیا ۔ ا ۔ آسمان سے پتھر برسا کر ان کی ہلاکت ٢ ۔ زمین انہیں دھنسا کر ان کی ہلاکت ۔ ٣ ۔ ان میں پھوٹ اور اختلاف کا پڑنا ۔ ٤ ۔ ان میں ایک کو ایک سے ایذائیں پہنچنا ۔ ان چاوروں چیزوں سے بچاؤ کی میری دعا تھی دو پہلی چیزیں تو مجھے عنایت ہو گئیں میری امت آسمانی پتھراؤ سے اور زمین میں دھنسائے جانے سے تو بچا دی گئی ۔ ہاں آپس کا اختلاف آپس کی سر پھٹول یہ نہیں اٹھی ۔ آپ کی والدہ کی قبر ایک ٹیلے تلے تھی اس لیے آپ راستے سے گھوم کر وہاں گئے تھے ۔ یہ روایت غریب ہے اور سیاق عجیب ہے ۔ لیکن اس سے بھی زیادہ غریب اور منکر وہ روایت ہے جو امام خطیب بغدادی نے اپنی کتاب بنام سابق لاحق میں مجہول سند سے وارد کی ہے جس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی والدہ کو زندہ کر دیا اور ایمان لائیں پھر مر گئیں ۔ اس طرح کی سہیلی کی ایک روایت ہے جس میں ایک نہیں کئی ایک راوی مجہول ہیں ۔ اس میں ہے کہ آپ کے ماں باپ دونوں دوبارہ زندہ ہوئے پھر ایمان لائے ۔ ابن دحیہ کہتے ہی کہ یہ حدیث جھوٹی ہے ۔ قرآن اور اجماع دونوں اس بات کو رد کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے خود قرآن میں فرمایا ہے : «وَلَا الَّذِینَ یَمُوتُونَ وَہُمْ کُفَّارٌ » ( 4-النساء : 18 ) اور ان کی توبہ بھی قبول نہیں جو کفر پر ہی مر جائیں ابن دحیہ نے اسی روایت پر نظریں جما کر کہا ہے کہ یہ نئی زندگی اسی طرح کی ہے جس طرح مروی ہے کہ سورج ڈوب جانے کے بعد واپس لوٹا اور علی نے نماز عصر ادا کی ۔ طحاوی تو کہتے ہیں کہ سورج والی یہ روایت ثابت ہے ۔ قرطبی کہتے ہیں ان کی دوبار کی زندگی شرعاً یا عقلاً ممتنع نہیں ۔ کہتے ہیں میں نے سنا ہے کہ آپ کے چچا ابوطالب کو بھی اللہ تعالیٰ نے زندہ کیا اور آپ پر ایمان لایا ۔ میں کہتا ہوں اگر صیح روایت سے یہ روایتیں ثابت ہوں تو بیشک مانع کوئی نہیں ( لیکن تینوں روایتیں محض گپ ہیں ) واللہ اعلم ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں آپ نے ارادہ کیا کہ اپنی ماں کے لیے استغفار کریں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ۔ تو آپ نے ابراہیم کے استغفار کو پیش کیا ۔ اس کا جواب«وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰہِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَآ اِیَّاہُ ۚ فَلَمَّا تَـبَیَّنَ لَہٗٓ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ ۭ اِنَّ اِبْرٰہِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ » ( 9- التوبہ : 114 ) میں مل گیا ۔ فرماتے ہیں اس آیت سے پہلے مشرکین کے لیے استغفار کیا جاتا تھا ۔ اب ممنوع ہو گیا ۔ ہاں زندوں کے لیے جائز رہا ۔ لوگوں نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہمارے بڑوں میں ایسے بھی تھے جو پڑوس کا اکرام کرتے تھے ، صلہ رحمی کرتے تھے ، غلام آزاد کرتے تھے ، ذمہ داری کا خیال رکھتے تھے ۔ تو کیا ہم ان کے لیے استغفار نہ کریں ؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں ، میں بھی اپنے والد کے لیے استغفار کرتا ہوں جیسے کہ ابراہیم اپنے والد کے لیے کرتے تھے ۔ اس پر «مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَن یَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِکِینَ وَلَوْ کَانُوا أُولِی قُرْبَیٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُمْ أَصْحَابُ الْجَحِیمِ » ( 9- التوبہ : 113 ) نازل ہوئی ۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کا عذر بیان ہوا اور فرمایا«وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰہِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَآ اِیَّاہُ ۚ فَلَمَّا تَـبَیَّنَ لَہٗٓ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ ۭ اِنَّ اِبْرٰہِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ » ( 9- التوبہ : 114 ) مذکور ہے کہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے چند باتیں وحی کی ہیں جو میرے کانوں میں گونج رہی ہیں اور میرے دل میں جگہ پکڑے ہوئے ہیں ۔ مجھے حکم فرمایا گیا کہ میں کسی اس شخص کے لیے استغفار نہ کروں جو شرک پر مرا ہو ۔ اور یہ کہ جو شخص اپنا فالتو مال دیدے اس کے لیے یہی افضل ہے اور جو روک رکھے اس کے لیے برائی ہے ۔ ہاں برابر سرابر حسب ضرورت پر اللہ کے ہاں ملامت نہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ایک یہودی مر گیا جس کا ایک لڑکا تھا لیکن وہ مسلمان تھا اس لیے اپنے باپ کے جنازے میں وہ شریک نہ ہوا ۔ جب عبداللہ بن عباس کو یہ بات معلوم ہوئی تو فرمانے لگے اسے جنازے میں جانا چاہیئے تھا اور دفن میں بھی موجود رہنا چاہیئے تھا اور باپ کی زندگی تک اس کے لیے ہدایت کی دعا کرنی چاہیئے تھی ۔ ہاں موت کے بعد اسے اس کی حالت پر چھوڑ دیتا ۔ پھر آپ نے« وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاہِیمَ لِأَبِیہِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَۃٍ وَعَدَہَا إِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہُ أَنَّہُ عَدُوٌّ لِّلَّہِ تَبَرَّأَ مِنْہُ ۚ إِنَّ إِبْرَاہِیمَ لَأَوَّاہٌ حَلِیمٌ » تلاوت فرمائی کہ ابراہیم نے یہ طریقہ نہیں چھوڑا ۔ اس کی صحت کی گواہ ابوداؤد وغیرہ کہ یہ روایت بھی ہو سکتی ہے کہ ابوطالب کی موت پر علی رضی اللہ عنہا آ کر کہتے ہیں کہ یا رسول اللہ آپ کے بوڑھے چچا گمراہ مر گئے ہیں ۔ آپ نے فرمایا جاؤ انہیں دفنا کر سیدھے میرے پاس آؤ الخ ۔ مروی ہے کہ جب ابوطالب کا جنازہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا تو آپ نے فرمایا میں تجھ سے صلہ رحمی کا رشتہ نبھا چکا ۔ عطا بن ابی رباح فرماتے ہیں میں تو قبلہ کی طرف منہ کرنے والوں میں سے کسی کے جنازے کی نماز نہ چھوڑوں گا ۔ گو وہ کوئی حبشن زنا سے حاملہ ہی ہو ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مشرکوں پر ہی نماز و دعا حرام کی ہے اور فرمایا ہے«مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَن یَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِکِینَ وَلَوْ کَانُوا أُولِی قُرْبَیٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُمْ أَصْحَابُ الْجَحِیمِ ، » ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے سنا کہ وہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے جو ابوہریرہ اور اس کی ماں کے لیے استغفار کرے ۔ تو اس نے کہا باپ کے لیے بھی ۔ آپ نے فرمایا نہیں اس لیے کہ میرا باپ شرک پر مرا ہے ۔ آیت میں فرمان الٰہی ہے کہ« قَالَ أَرَاغِبٌ أَنتَ عَنْ آلِہَتِی یَا إِبْرَاہِیمُ ۖ لَئِن لَّمْ تَنتَہِ لَأَرْجُمَنَّکَ ۖ وَاہْجُرْنِی مَلِیًّا قَالَ سَلَامٌ عَلَیْکَ ۖ سَأَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّی ۖ إِنَّہُ کَانَ بِی حَفِیًّا» ( 19-مریم : 46 ، 47 ) اس نے ( ان کے والد نے ) کہا ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے برگشتہ ہے ؟ اگر تو باز نہ آئے گا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا اور تو ہمیشہ کے لیے مجھ سے دور ہو جا ، ابراہیم نے سلام علیک کہا ( اور کہا کہ ) میں آپ کے لیے اپنے پروردگار سے بخشش مانگوں گا ۔ بیشک وہ مجھ پر نہایت مہربان ہے ۔ جب ابراہیم علیہ السلام پر اپنے باپ کا اللہ کا دشمن ہونا کھل گیا ۔ یعنی وہ کفر ہی پر مر گیا ۔ مروی ہے کہ قیامت کے دن جب ابراہیم علیہ السلام سے ان کا باپ ملے گا ۔ نہایت سرا سیمگی پریشانی کی حالت میں چہرہ غبار آلود اور کالا پڑا ہوا ہو گا کہے گا کہ ابراہیم آج میں تیری نافرمانی نہ کروں گا ۔ ابراہیم علیہ السلام جناب باری میں عرض کریں گے کہ میرے رب تو نے مجھے قیامت کے دن رسوا نہ کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے ۔ اور میرا باپ تیری رحمت سے دور ہو کر عذاب میں مبتلا ہو یہ بہت بڑی رسوائی ہے ۔ اس پر فرمایا جائے گا کہ اپنی پیٹھ پیچھے دیکھو ۔ دیکھیں گے کہ ایک بجو کیچڑ میں لتھڑا ہوا کھڑا ہے ۔ یعنی آپ کے والد کی صورت مسخ ہو گئی ہو گی اور اس کے پاؤں پکڑ کر گھسیٹ کر اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا ۔ فرماتا ہے کہ ابراہیم بڑا ہی دعا کرنے والا تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے «أَوَّاہٌ » کا مطلب دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا رونے دھونے والا ، اللہ تعالیٰ کے سامنے گریہ و زاری کرنے والا ۔ ابن مسعود فرماتے ہیں بہت ہی رحم کرنے والا ، مخلوق رب کے ساتھ نرمی اور سلوک اور مہربانی کرنے والا ۔ ابن عباس کا قول ہے پورے یقین والا ۔ سچے ایمان والا ، توبہ کرنے والا ، حبشی زبان میں«أَوَّاہٌ » مومن اور موقن یقین و ایمان والے کو کہتے ہیں ۔ ذوالنجادین نامی ایک صحابی کو اس بنا پر کہ جب قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتا تو وہ اسی وقت دعا کے ساتھ آواز اٹھاتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «أَوَّاہٌ » فرمایا ۔ ( مسند احمد ) «أَوَّاہٌ » سے مراد تسبیح پڑھنے والا ۔ ضحٰی کی نماز پڑھنے والا ۔ اپنے گناہوں کی یاد آنے پر استغفار کرنے والا ۔ اللہ کے دین کی حفاظت کرنے والا ۔ رب سے ڈرنے والا ۔ پوشیدہ اگر کوئی گناہ ہو جائے تو توبہ کرنے والا بھی مروی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص کا ذکر ہوا کہا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بکثرت یاد کرتا ہے اور اللہ کی تسبیح بیان کرتا رہتا ہے ۔ آپ نے فرمایا وہ «أَوَّاہٌ » ہے ۔ ( ابن جریر ) اسی ابن جریر میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک میت کو دفن کر کے فرمایا یقیناً تو «أَوَّاہٌ » یعنی بکثرت تلاوت کلام اللہ شریف کرنے والا تھا ۔ اور روایت میں ہے کہ ایک شخص بیت اللہ شریف کا طواف کرتے ہوئے اپنی دوا میں «أَوَّاہٌ » «أَوَّاہٌ » کر رہا تھا ۔ اس کے انتقال کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے دفن میں شامل تھے چونکہ رات کا وقت تھا اس لیے آپ کے ساتھ چراغ بھی تھا ۔ ( ابن جریر ) یہ روایت غریب ہے ۔ کعب احبار فرماتے ہیں کہ جب ابراہیم کے سامنے جہنم کا ذکر ہوتا تھا تو آپ اس سے پناہ مانگا کرتے تھے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں «أَوَّاہٌ » یعنی« فقیہ» ۔ امام ابن جریر کا فیصلہ یہ ہے کہ سب سے بہتر قول ان تمام اقوال میں یہ ہے کہ مراد اس لفظ سے بکثرت دعا کرنے والا ہے ۔ الفاظ کے مناسب بھی یہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہاں ذکر یہ فرمایا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اپنے والد کے لیے استغفار کیا کرتے تھے اور تھے بھی بکثرت دعا مانگنے والے ۔ بردبار بھی تھے ، جو آپ پر ظلم کرے ، آپ سے برا پیش آئے آپ تحمل کر جایا کرتے تھے ۔ باپ نے آپ کو ایذاء دی صاف کہہ دیا تھا کہ تو میرے معبودوں سے منہ پھیر رہا ہے تو اگر اپنی اس حرکت سے باز نہ آیا تو میں تجھے پتھر مار مار کر مار ڈالوں گا ۔ وغیرہ لیکن پھر بھی آپ نے ان کے لیے استغفار کرنے کا وعدہ کر لیا ، پس اللہ فرماتا ہے کہ«إِنَّ إِبْرَاہِیمَ لَأَوَّاہٌ حَلِیمٌ» ابراہیم «أَوَّاہٌ » اور حلیم تھے ۔