وَجَاءَ الْمُعَذِّرُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ لِيُؤْذَنَ لَهُمْ وَقَعَدَ الَّذِينَ كَذَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ سَيُصِيبُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اور (اے پیغمبر) اعرابیوں میں سے (یعنی عرب کے صحرائی بدوں میں سے) عذر کرنے والے تمہارے پاس آئے کہ انہیں بھی (رہ جانے کی) اجازت دی جائے اور (ان میں سے) جن لوگوں نے اظہار اسلام کر کے) اللہ اور اس کے رسول سے جھوٹ بولا تھا وہ گھروں ہی میں بیٹھے رہے، سو معلوم ہوا کہ ان میں سے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی انہیں عنقریب عذاب دردناک پیش آئے گا۔
جہاد اور معذور لوگ یہ بیان ان لوگوں کا ہے جو حقیقتاً کسی شرعی عذر کے باعث جہاد میں شامل نہ ہو سکتے تھے مدینہ کے اردگرد کے یہ لوگ آ آ کر اپنی کمزور ضعیفی ، بےطاقتی بیان کر کے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لیتے ہیں کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں واقعی معذور سمجھیں تو اجازت دے دیں ۔ یہ بنو غفار کے قبیلے کے لوگ تھے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی قرأت میں « وَجَاۤءَ الْـمُ۔عْزِرُوْنَ» ہے یعنی اہل عذر لوگ ۔ یہی معنی مطلب زیادہ ظاہر ہے کیونکہ اسی جملے کے بعد ان لوگوں کا بیان ہے جو جھوٹے تھے ۔ یہ نہ آئے نہ اپنا رک جانے کا سبب پیش کیا نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رک رہنے کی اجازت چاہی ۔ بعض بزرگ فرماتے ہیں کہ عذر پیش کرنے والے بھی دراصل عذر والے نہ تھے اسی لیے ان کے عذر مقبول نہ ہوئے ۔ لیکن پہلا قول پہلا ہی ہے وہی زیادہ ظاہر ہے ، واللہ اعلم ۔ اس کی ایک وجہ تو وہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کی ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عذاب کا وعدہ ان ہوا جو بیٹھے رہی رہے ۔