وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى ۖ وَعَهِدْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ
اور (پھر دیکھو) جب ایسا ہسا ہوا تھا کہ ہم نے (مکہ) کے اس گھر کو (یعنی خانہ کعبہ کو) انسانوں کے گرد آوری کا مرکز اور امن و ھرمت کا مقام ٹھہرا دیا اور حکم دیا کہ ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ (ہمیشہ کے لیے) نماز کی جگہ بنا لی جائے۔ اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا تھا کہ ہمارے نام پر جو گھر بنایا گیا ہے اسے طواف کرنے والوں، عبادت کے لیے ٹھہرنے والوں اور رکوع و سوجد کرنے والوں کے لیے (ہمیشہ) پاک رکھنا اور ظلم و معصیت کی گندگیوں سے آلودہ نہ کرنا)
شوق زیارت اور بڑھتا ہے «مثابتہ» سے مراد باربار آنا ۔ حج کرنے کے بعد بھی دل میں لگن لگی رہتی ہے گویا حج کرنے کے بعد بھی ہر بار دل میں ایک بار اور حج کرنے کی تمنا رہتی ہے دنیا کے ہر گوشہ سے لوگ بھاگے دوڑے اس کی طرف جوق در جوق چلے آ رہے ہیں یہی جمع ہونے کی جگہ ہے اور یہی امن کا مقام ہے جس میں ہتھیار نہیں اٹھایا جاتا جاہلیت کے زمانہ میں بھی اس کے آس پاس تو لوٹ مار ہوتی رہتی لیکن یہاں امن و امان ہی رہتا کوئی کسی کو گالی بھی نہیں دیتا ۔ یہ جگہ ہمیشہ متبرک اور شریف رہی ۔ نیک روحیں اس کی طرف مشتاق ہی رہتی ہیں گو ہر سال زیارت کریں لیکن پھر بھی شوق زیارت کم نہیں ہوتا ہے ۔ یہ ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا اثر ہے ۔ آپ علیہ السلام نے دعا مانگی تھی کہ آیت «فَاجْعَلْ اَفْیِٕدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِیْٓ اِلَیْہِمْ وَارْزُقْہُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمْ یَشْکُرُوْنَ» ( 14 ۔ ابرہیم : 37 ) تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف جھکا دے ۔ یہاں باپ اور بھائی کے قاتل کو بھی کوئی دیکھتا تو خاموش ہو جاتا ۔ سورۃ المائدہ میں «جَعَلَ اللہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیَامًا لِّلنَّاسِ» ( 5-المائدۃ : 97 ) یعنی یہ لوگوں کے قیام کا باعث ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر لوگ حج کرنا چھوڑ دیں تو آسمان زمین پر گرا دیا جائے ۔ اس گھر کے اس شرف کو دیکھ کر پھر اس کے بانی اول ابراہیم خلیل علیہ السلام کے شرف کو خیال فرمائے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت «وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰہِیْمَ مَکَانَ الْبَیْتِ اَنْ لَّا تُشْرِکْ بِیْ شَیْـــــًٔا وَّطَہِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّایِٕفِیْنَ وَالْقَایِٕمِیْنَ وَالرٰکَّعِ السٰجُوْدِ» ( 22 ۔ الحج : 26 ) ہم نے بیت اللہ کی جگہ ابراہیم کو بتا دی ( اور کہہ دیا ) کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور جگہ ہے آیت «اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وٰضِــعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّھُدًی لِّـلْعٰلَمِیْنَ فِیہِ آیَاتٌ بَیِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاہِیمَ وَمَن دَخَلَہُ کَانَ آمِنًا» ( 3 ۔ آل عمران : 97 ، 96 ) اللہ جل شانہ کا پہلا گھر مکہ میں جو برکت و ہدایت والا نشانیوں والا مقام ابراہیم والا امن و امان والا ہے مقام ابراہیم بھی ہے ۔ اور حج کل کا کل بھی ہے مثلاً عرفات ، مشعر الحرام ، منیٰ ، رمی ، جمار ، صفا مروہ کا طواف ، مقام ابراہیم دراصل وہ پتھر ہے جسے اسمٰعیل علیہ السلام کی بیوی صاحبہ نے ابراہیم علیہ السلام کے نہانے کے لیے ان کے پاؤں کے نیچے رکھا تھا ، (تفسیر ابن جریر الطبری:35/3) لیکن سعید بن جیر رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ غلط ہے ۔ دراصل وہ یہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرات ابراہیم علیہ السلام کعبہ بناتے تھے سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ کی لمبی حدیث میں ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کر لیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مقام ابراہیم کی طرف اشارہ کر کے کہا ۔ کیا یہی ہمارے باپ ابراہیم علیہ السلام کا مقام ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں کہا پھر ہم اسے قبلہ کیوں نہ بنا لیں ؟ اس پر آیت نازل ہوئی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:35/3) ایک اور روایت میں ہے کہ فاروق رضی اللہ عنہ کے سوال پر تھوڑی ہی دیر گزری تھی جو حکم نازل ہوا۔(النسائی فی السنن الکبریٰ:10998) ایک اور حدیث میں ہے کہ فتح مکہ والے دن مقام ابراہیم کے پتھر کی طرف اشارہ کر کے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا یہی ہے جسے قبلہ بنانے کا ہمیں حکم ہوا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں یہی ہے ۔(تفسیر ابن ابی حاتم:370:صحیح) صحیح بخاری شریف میں ہے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اپنے رب سے تین باتوں میں موافقت کی جو اللہ تعالیٰ کو منظور تھا وہی میری زبان سے نکلا میں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاش کہ ہم مقام ابراہیم علیہ السلام کو قبلہ بنا لیتے تو حکم آیت «وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّی» ( 2 ۔ البقرہ : 125 ) نازل ہوا میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاش کہ آپ امہات المؤمنین کو پردے کا حکم دیں اس پر پردے کی آیت اتری جب مجھے معلوم ہوا کہ آج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے خفا ہیں تو میں نے جا کر ان سے کہا کہ اگر تم باز نہ آؤ گی تو اللہ تعالیٰ تم سے اچھی بیویاں تمہارے بدلے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دے گا اس پر فرمان بازی نازل ہوا کہ آیت «عَسَیٰ رَبٰہُ إِن طَلَّقَکُنَّ أَن یُبْدِلَہُ أَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنکُنَّ» ( 66-التحریم : 5 ) اس حدیث کی بہت سی اسناد ہیں اور بہت سی کتابوں میں مروی ہے ۔(صحیح مسلم:2399)ایک روایت میں بدر کے قیدیوں کے بارے میں بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی موافقت مروی ہے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ اس سے فدیہ نہ لیا جائے بلکہ انہیں قتل کر دیا جائے اللہ سبحانہ تعالیٰ کو بھی یہی منظور تھا ۔ (صحیح مسلم:1218) عبداللہ بن ابی بن سلول منافق جب مر گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے جنازے کی نماز ادا کرنے کے لیے تیار ہوئے تو میں نے کہا تھا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس منافق کافر کا جنازہ پڑھیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ڈانٹ دیا اس پر آیت «وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ» ( 9 ۔ التوبہ : 84 ) نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسوں کے جنازے سے روکا گیا ۔ ابن جریج میں روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے طواف میں تین مرتبہ رمل کیا یعنی دوڑ کی چال چلے اور چار پھیرے چل کر کئے پھر مقام ابراہیم کے پیچھے آ کر دو رکعت نماز ادا کی اور یہ آیت تلاوت فرمائی آیت «وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّی» ( 2 ۔ البقرہ : 125 ) سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ مقام ابراہیم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور بیت اللہ کے درمیان کر لیا تھا ۔ ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر ابراہیم علیہ السلام کعبہ بنا رہے تھے اسماعیل علیہ السلام آپ کو پتھر دیتے جاتے تھے اور آپ علیہ السلام کعبہ کی بنا کرتے جاتے تھے اور اس پتھر کو سرکاتے جاتے تھی جہاں دیوار اونچی کرنی ہوتی تھی وہاں لیجاتے تھے اسی طرح کعبہ کی دیواریں پوری کیں اس کا پورا بیان ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ میں آئے گا ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ اس پتھر پر آپ علیہ السلام کے دونوں قدموں کے نشان ظاہر تھے عرب کی جاہلیت کے زمانہ کے لوگوں نے بھی دیکھے تھے ۔ ابوطالب نے اپنے مشہور قصیدہ میں کہا ہے و «موطی ابراہیم فی الصخر رطبتہ» «علی قدمیہ حایا غیر ناعل» یعنی اس پتھر میں ابراہیم علیہ السلام کے دونوں پیروں کے نشان تازہ بتازہ ہیں جن میں جوتی نہیں بلکہ مسلمانوں نے بھی اسے دیکھا تھا سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مقام ابراہیم میں خلیل اللہ کے پیروں کی انگلیوں اور آپ علیہ السلام کے تلوے کا نشان دیکھا تھا پھر لوگوں کے چھونے سے وہ نشان مٹ گئے حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں حکم اس کی جانب نماز ادا کرنے کا ہے تبرک کے طور پر چھونے اور ہاتھ لگانے کا نہیں اس امت نے بھی اگلی امتوں کی طرح بلا حکم الہ العالمین بعض کام اپنے ذمہ لازم کر لیے جو نقصان رساں ہیں وہ نشان لوگوں کے ہاتھ لگانے سے مٹ گئے ۔ یہ مقام ابراہیم پہلے دیوار کعبہ کے متصل تھا کعبہ کے دروازے کی طرف حجر اسود کی جانب دروازے سے جانے والے کے دائیں جانب مستقل جگہ پر تھا جو آج بھی لوگوں کو معلوم ہے خلیل اللہ نے یا تو اسے یہاں رکھوا دیا تھا یا بیت اللہ بناتے ہوئے آخری حصہ یہی بنایا ہو گا اور یہیں وہ پتھر رکھا ہے ۔ امیرالمؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں اسے پیچھے ہٹا دیا اس کے ثبوت میں بہت سی روایتیں ہیں پھر ایک مرتبہ پانی کے سیلاب میں یہ پتھر یہاں سے بھی ہٹ گیا تھا خلیفہ ثانی نے اسے پھر اپنی جگہ رکھوا دیا حضرت سفیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں مجھے معلوم نہیں ہوا کہ یہ اصلی جگہ سے ہٹایا گیا اس سے پہلے دیوار کعبہ سے کتنی دور تھا ایک روایت میں ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اصلی جگہ سے ہٹا کر وہاں رکھا تھا جہاں اب ہے لیکن یہ روایت مرسل ہے ٹھیک بات یہی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے پیچھے رکھا ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ عہد جو مترادف حکم ہے یہاں عہد سے مراد وہ حکم ہے جس میں کہا گیا ہے گندی اور نجس اور بری چیزوں سے پاک رکھنا ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:373/1) عہد کا تعدیہ الی سے ہو تو معنی ہم نے وحی کی اور پہلے سے کہہ دیا کہ پاک رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے بتوں سے بچانا غیر اللہ کی عبادت نہ ہونے دینا لغو کاموں فضول بکواس جھوٹی باتوں شرک و کفر ، ہستی اور مذاق سے اسے محفوظ رکھنا بھی اسی میں شامل ہے ۔ طائف کے ایک معنی طواف کرنے والوں کے ہیں دوسرے معنی باہر سے آنے والوں کے ہیں اس تقدیر پر عاکفین کے معنی مکہ کے باشندے ہوں گے ایک مرتبہ لوگوں نے کہا کہ امیر وقت سے کہنا چاہیئے کہ لوگوں کو بیت اللہ شریف میں سونے سے منع کریں کیونکہ ممکن ہے کوئی کسی وقت جنبی ہو جائے ممکن ہے کبھی آپس میں فضول باتیں کریں تو ہم نے سنا کہ انہیں نہ روکنا چاہیئے ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ انہیں بھی عاکفین کہتے تھے ایک صحیح حدیث میں ہے کہ مسجد نبوی فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبداللہ رضی اللہ عنہ سویا کرتے تھے وہ جوان اور کنوارے تھے ۔ (صحیح بخاری:440) رکع السجود سے مراد نمازی ہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:376/1) پاک رکھنے کا حکم اس واسطے دیا گیا کہ اس وقت بھی بت پرستی رائج تھی دوسرے اس لیے کہ یہ بزرگ اپنی نیتوں میں خلوص کی بات رکھیں دوسری جگہ ارشاد ہے آیت «وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاہِیمَ مَکَانَ الْبَیْتِ أَن لَّا تُشْرِکْ بِی شَیْئًا وَطَہِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّائِفِینَ وَالْقَائِمِینَ وَالرٰکَّعِ السٰجُودِ» ( 22-الحج : 26 ) اس آیت میں بھی حکم ہے کہ میرے ساتھ شریک نہ کرنا اور میرے گھر کو پاک صاف رکھنا فقہاء کا اس میں اختلاف ہے کہ بیت اللہ کی نماز افضل ہے یا طواف ؟ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں باہر والوں کے لیے طواف افضل ہے اور جمہور کا قول ہے کہ ہر ایک کے لیے نماز افضل ہے اس کی تفصیل کی جگہ تفسیر نہیں ۔ مقصد اس سے مشرکین کو تنبیہ اور تردید ہے کہ بیت اللہ تو خاص اللہ کی عبادت کے لیے بنایا گیا ہے اس میں اوروں کی عبادت کرنا اور خالص اللہ کی عبادت کرنے والوں کو اس سے روکنا کس قدر صریح بےانصافی ہے اور اسی لیے قرآن میں فرمایا کہ ایسے ظالموں کو ہم درد ناک عذاب چکھائیں گے مشرکین کی اس کھلی تردید کے ساتھ ہی یہود و نصاریٰ کی تردید بھی اس آیت میں ہو گئی کہ اگر وہ ابراہیم و اسماعیل سلام اللہ علیہما کی افضیلت ، بزرگی اور نبوت کے قائل ہیں اور یہ بھی جانتے اور مانتے ہیں کہ یہ شریف گھرانے کے متبرک ہاتھوں کا بنا ہوا ہے جب وہ اس کے بھی قائل ہیں کہ یہ محض نماز و طواف و دعا اور عبادت اللہ کے لیے بنایا گیا ہے حج و عمرے اور اعتکاف وغیرہ کے لیے مخصوص کیا گیا ہے تو پھر ان نبیوں کی تابعداری کے دعوے کے باوجود کیوں حج و عمرے سے رکے ہوئے ہیں ؟ کیوں بیت اللہ شریف میں حاضری نہیں دیتے ؟ بلکہ خود موسیٰ علیہ السلام نے اس گھر کا حج کیا جیسا کہ حدیث میں صاف موجود ہے ۔ (صحیح مسلم:166) آیۃ کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اور مسجدوں کو بھی پاک صاف رکھنا چاہیئے اور جگہ قرآن میں ہے آیت «فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ» ( 24 ۔ النور : 36 ) اللہ تعالیٰ نے مسجدوں کو بلند کرنے کی اجازت دی ہے ان میں اس کا نام ذکر کیا جائے ان میں صبح شام اس کی تسبیح اس کے نیک بندے کرتے ہیں ۔ حدیث شریف میں بھی ہے کہ مسجدیں اسی کام کے لیے ہیں ۔ (صحیح مسلم:285) اور احادیث میں بہت ہی تاکید کے ساتھ مسجدوں کی پاکیزگی کا حکم آیا ہے امام ابن کثیر نے اس بارے میں ایک خاص رسالہ تصنیف فرمایا ہے ۔ بعض لوگ تو کہتے ہیں سب سے پہلے کعبۃ اللہ فرشتوں نے بنایا تھا لیکن یہ سنداً غریب ہے بعض کہتے ہیں آدم علیہ السلام نے سب سے پہلے بنایا تھا حرا ، طور سینا ، طور زیتا ، جبل لبنان اور جودی ان پانچ پہاڑوں سے بنایا تھا لیکن یہ بھی سنداً غریب ہے بعض کہتے ہیں شیث علیہ السلام نے سب سے پہلے بنایا تھا لیکن یہ بھی اہل کتاب کی بات ہے ۔ حدیث شریف میں ہے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرام بنایا اور فرمایا میں مدینہ منورہ کو حرام قرار دیتا ہوں ۔ اس میں شکار نہ کھیلا جائے یہاں کے درخت نہ کاٹے جائیں یہاں ہتھیار نہ اٹھائے جائیں ۔ (صحیح مسلم:1362) صحیح مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ لوگ تازہ پھل لے کر خدمت نبوی میں حاضر ہوتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے لے کر دعا کرتے کہ اے اللہ ہمارے پھلوں میں ہمارے شہر میں ہمارے ناپ تول میں بھی برکت دے ۔ اے اللہ ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے تیرے خلیل اور تیرے رسول تھے میں بھی تیرا بندہ تیرا رسول ہوں انہوں نے تجھ سے مکہ کے لیے دعا کی تھی میں تجھ سے مدینہ ( منورہ ) کے لیے دعا کرتا ہوں جیسے انہوں نے مکہ مکرمہ کے لیے کی تھی بلکہ ایسی ہی ایک اور بھی ۔ آپ کسی چھوٹے بچہ کو بلا کر وہ پھل اسے عطا فرما دیا کرتے ۔ (صحیح مسلم:1373) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ جاؤ اپنے بچوں میں سے کسی ایک کو ہماری خدمت کے لیے آؤ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ مجھے لے کر حاضر ہوئے میں اب سفرو حضر میں حاضر خدمت رہنے لگا ۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر سے آ رہے تھے جب احد پہاڑ پر نظر پڑی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ پہاڑ ہم سے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں ۔ جب مدینہ نظر آیا تو فرمانے لگے یا اللہ میں اس کے دونوں کنارے کے درمیان کی جگہ کو حرم مقرر کرتا ہوں جیسے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم بنایا اے اللہ ان کے مد اور صاع میں اور ناپ میں برکت دے ۔ (صحیح بخاری:2889) اور روایت میں ہے یا اللہ جتنی برکت تو نے مکہ میں دی ہے اس سے دگنی برکت مدینہ میں دے ۔ (صحیح بخاری:1885) اور روایت میں ہے مدینہ میں قتل نہ کیا جائے اور چارے کے سوا اور پتے بھی یہاں کے درختوں کے نہ جھاڑے جائیں اسی مضمون کی حدیثیں جن سے ثابت ہوتا ہے مدینہ بھی مثل مکہ کے حرم ہے اور بھی بہت سی ہیں ۔ یہاں ان احادیث کے وارد کرنے سے ہماری غرض مکہ شریف کی حرمت اور یہاں کا امن بیان کرنا ہے ، بعض تو کہتے ہیں کہ یہ شروع سے حرم اور امن ہے بعض کہتے ہیں خلیل اللہ کے زمانہ سے لیکن پہلا قول زیادہ ظاہر ہے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن فرمایا جب سے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین پیدا کئے تب سے اس شہر کو حرمت و عزت والا بنایا ہے اب یہ قیامت تک حرمت و عزت والا ہی رہے گا اس میں جنگ وقتال کسی کو حلال نہیں میرے لیے بھی آج کے دن ہی ذرا سی دیر کے لیے حلال تھا اب وہ حرام ہی حرام ہے سنو اس کے کانٹے نہ کاٹے جائیں اس کا شکار نہ بھگایا جائے اس میں کسی کی گری پڑی چیز نہ اٹھائی جائے جو پہنچوائی جائے اس کے لیے اٹھانا جائز ہے اس کی گھاس نہ کاٹی جائے دوسری روایت میں ہے کہ یہ حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اثنائے خطبہ میں بیان فرمائی تھی اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے سوال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذخر نامی گھاس کے کاٹنے کی اجازت دی تھی ۔ (صحیح بخاری:1834) سیدنا ابن شریح عدوی رضی اللہ عنہ نے عمر بن سعید سے اس وقت کہا جب وہ مکہ کی طرف لشکر بھیج رہا تھا کہ اے امیر سن فتح مکہ والے دن صبح ہی صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ میں فرمایا جسے میرے کانوں نے سنا دل نے یاد رکھا اور میں نے آنکھوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ مکہ کو رب ذوالجلال نے حرام کیا ہے لوگوں نے نہیں کیا ، کسی ایماندار کو اس میں خون بہانا اس کا درخت کاٹنا حلال نہیں ۔ اگر کوئی میری اس لڑائی کو دلیل بنائے تو کہہ دینا کہ میرے لیے صرف آج ہی کے دن کی ایسی ساعت یہاں جہاد حلال تھا ۔ پھر اس شہر کی حرمت آ گئی ہے جیسے کل تھی ۔ خبردار ہر حاضر غائب کو یہ پہنچا دے لیکن عمرو نے یہ حدیث سن کر صاف جواب دے دیا کہ میں تجھ سے زیادہ اس حدیث کو جانتا ہوں ۔ حرم نافرمان کو اور خونی کو اور بربادی کرنے والے کو نہیں بچانا ۔ (صحیح بخاری:1832) ان دونوں احادیث میں کوئی تعارض نہ سمجھے تطبیق یوں ہے کہ مکہ روز اول سے حرمت والا تھا لیکن اس حرمت کی تبلیغ خلیل اللہ نے کی جس طرح نبی کریم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو اس وقت سے تھے جب کہ آدم علیہ السلام کا خمیر گوندھ رکھا تھا بلکہ آپ اس وقت بھی خاتم الانبیاء لکھے ہوئے تھے ۔ (مسند احمد:127/4صحیح بالشواھد) لیکن تاہم ابراہیم علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دعا کی کہ آیت «رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ» ( 2 ۔ البقرہ : 129 ) ان ہی میں سے ایک رسول ان میں بھیج جو اللہ نے پوری کی اور تقدیر کی لکھی ہوئی وہ بات ظاہر و باہر ہوئی ۔ ایک حدیث میں ہے کہ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ابتداء نبوت کا تو کچھ ذکر کیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی بشارت اور میری ماں کا خواب وہ دیکھتی ہیں کہ ان سے گویا ایک نور نکلا جس نے شام کے محلات کو روشن کر دیا اور وہ نظر آنے لگے ۔ (طیالسی:1140:حسن) مدینہ منورہ افضل یامکہ مکرمہ؟ اس بات کا بیان کہ مکہ افضل ہے یا مدینہ ؟ جیسا کہ جمہور کا قول ہے جیسے کہ حضرت امام مالک رحمہ اللہ اور ان کے تابعین کا مذہب ہے مدینہ افضل ہے مکہ سے ۔ اسے دونوں طرف کے دلائل کے ساتھ عنقریب ہم بیان کریں گے ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ ابراہیم علیہ السلام دعا کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ اس جگہ کو امن والا شہر بنا یعنی یہاں کے رہنے والوں کو نڈر اور بے خوف رکھ ۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے جیسے کہ فرمایا آیت «وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا» ( 3 ۔ آل عمران : 97 ) اس میں جو آیا وہ امن والا ہو گیا اور جگہ ارشاد ہے آیت «أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَیُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِہِمْ أَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَۃِ اللہِ یَکْفُرُونَ» ( 29-العنکبوت : 67 ) کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو امن والا بنایا لوگ اس کے آس پاس سے اچک لیے جاتے ہیں اور یہاں وہ پر امن رہتے ہیں ۔ اسی قسم کی اور آیتیں بھی ہیں اور اس مضمون کی بہت سی حدیثیں بھی اوپر گزر چکی ہیں کہ مکہ شریف میں قتال حرام ہے ۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کسی کو حلال نہیں کہ مکہ میں ہتھیار اٹھائے (صحیح مسلم:1356) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا حرمت کعبۃ اللہ کی بنا سے پہلے تھی اس لیے کہا کہ اے اللہ اس جگہ کو امن والا شہر بنا ، سورۃ ابراہیم میں یہی دعا ان لفظوں میں ہے آیت «رَبِّ اجْعَلْ ہٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا» ( 14 ۔ ابراہیم : 35 ) شاید یہ دعا دوبارہ کی تھی ۔ جب بیت اللہ شریف تیار ہو گیا اور شہر بس گیا اور اسحاق علیہ السلام جو اسمٰعیل علیہ السلام سے تین سال چھوٹے تھے تولد ہو چکے اسی لیے اس دعا کے آخر میں ان کی پیدائش کا شکریہ بھی ادا کیا ۔ «ومن کفر» سے آخر تک اللہ تعالیٰ کا کلام ہے بعض نے اسے بھی دعا میں دخل کیا ہے تو اس تقدیر پر یہ مطلب ہو گا کہ کفار کو بھی تھوڑا سا فائدہ دے پھر انہیں عذاب کی طرف بی بس کر اس میں بھی حضرات ابراہیم علیہم السلام کی خلت ظاہر ہوتی ہے کہ وہ اپنی بری اولاد کے بھی مخالف ہیں اور اسے کلام اللہ ماننے کا یہ مطلب ہو گا کہ چونکہ امامت کا سوال جب اپنی اولاد کے لیے کیا اور ظالموں کی محرومی کا اعلان سن چکے اور معلوم ہو گیا کہ آپ پیچھے آنے والوں میں بھی اللہ کے نافرمان ہوں گے تو مارے ڈر کے ادب کے ساتھ بعد میں آنے والی نسلوں کو روزی طلب کرتے ہوئے صرف ایماندار اولاد کے لیے کہا ۔ ارشاد باری ہوا کہ دنیا کا فائدہ تو کفار کو بھی دیتا ہے جیسے اور جگہ ہے آیت «کُلًّا نٰمِدٰ ہٰٓؤُلَاءِ وَہٰٓؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّکَ وَمَا کَانَ عَطَاءُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًا» ( 17 ۔ الاسرآء : 20 ) یعنی ہم انہیں اور ان کو بھی فائدہ دیں گے تیرے رب کی بخشش محدود نہیں ۔ اور جگہ ہے جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پاتے دنیا کا کچھ فائدہ گو اٹھا لیں لیکن ہماری طرف آ کر اپنے کفر کے بدلے سخت عذاب چکھیں گے ۔ (10-یونس:70) اور جگہ ہے کافروں کا کفر تجھے غمگین نہ کرے جب یہ ہماری طرف لوٹیں گے تو ان کے اعمال پر ہم انہیں تنبیہ کریں گے اللہ تعالیٰ سینوں کی چھپی باتوں کو بخوبی جانتا ہے ہم انہیں یونہی سا فائدہ پہنچا کر سخت غلیظ عذابوں کی طرف بے قرار کریں گے اور جگہ ہے آیت «وَلَوْلَآ اَنْ یَّکُوْنَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً لَّجَعَلْنَا لِمَنْ یَّکْفُرُ بِالرَّحْمٰنِ لِبُیُوْتِہِمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّۃٍ وَّمَعَارِجَ عَلَیْہَا یَظْہَرُوْنَ» ( 43 ۔ الزخرف : 33 ) اگر یہ خطرہ نہ ہو تاکہ لوگو ایک ہی امت ہو جائیں تو ہم کافروں کی چھتیں اور سیڑھیاں چاندی کی بنا دیتے اور ان کے گھر کے دروازے اور تخت جن پر ٹیکے لگائے بیٹھے رہتے اور سونا بھی دیتے لیکن یہ سب دنیوی فوائد ہیں آخرت کا بھلا گھر تو صرف پرہیزگاروں کے لیے ہے ۔ یہی مضمون پرہیز گاروں کے لیے ہے یہی مضمون اس آیت میں بھی ہے کہ ان کا انجام برا ہے یہاں ڈھیل پا لیں گے لیکن وہاں سخت پکڑ ہو گی ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت «فَکَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اَہْلَکْنٰہَا وَہِیَ ظَالِمَۃٌ فَہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِہَا وَبِئْرٍ مٰعَطَّلَۃٍ وَّقَصْرٍ مَّشِیْدٍ» ( 22 ۔ الحج : 45 ) بہت سی ظالم بستیوں کو ہم نے مہلت دی پھر پکڑ لیا انجام کو تو ہمارے ہی پاس لوٹنا ہے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے گندی باتوں کو سن کر صبر کرنے میں اللہ سے بڑھ کر کوئی نہیں لوگ اس کی اولاد بتاتے ہیں لیکن تاہم وہ انہیں رزق و عافیت دے رہا ہے (صحیح بخاری:6099) اور حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا ہے پھر اسے اچانک پکڑ لیتا ہے (فتح الباری:205/8) پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی آیت «وَکَذٰلِکَ اَخْذُ رَبِّکَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰی وَہِیَ ظَالِمَۃٌ اِنَّ اَخْذَہٗٓ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ» ( 11 ۔ ہود : 102 )(صحیح بخاری:4686) اس جملہ کو ابراہیم علیہ السلام کی دعا میں شامل کرنا شاذ قرأت کی بنا پر ہے جو ساتوں قاریوں کی قرأت کے خلاف ہے اور ترکیب سیاق و سباق بھی یہی ظاہر کرتی ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اس لیے کہ قال کی ضمیر کا مرجع اللہ کی طرف ہے اور اس شاذ قرأت کی بنا پر اس کے فاعل اور قائل بھی ابراہیم علیہ السلام ہی ہوتے ہیں جو نظم کلام سے بظاہر مخالف ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ قواعد جمع ہے قاعدہ کی ترجمہ اس کا پایہ اور نیو ( بنیاد ) ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے والوں کو بنائے ابراہیمی کی خبر دو ، ایک قرأت میں «واسمعیل» کے بعد «ویقولان» بھی ہے اسی دلالت میں آگے لفظ «مسلمین» بھی ہے دونوں نبی نیک کام میں مشغول ہیں اور قبول نہ ہونے کا کھٹکا ہے تو اللہ تعالیٰ سے قبولیت کی دعا کرتے ہیں وہیب بن ورد رحمہ اللہ جب اس آیت کی تلاوت کرتے تو بہت روتے اور فرماتے آہ ! خلیل الرحمن علیہ السلام جیسے اللہ کے مقبول پیغمبر اللہ کا کام اللہ کے حکم سے کرتے ہیں اس کا گھر اس کے فرمان سے بناتے ہیں اور پھر خوف ہے کہ کہیں یہ قبولیت سے گر نہ جائے سچ ہے مخلص مومنوں کا یہی حال ہے آیت «وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌ اَنَّہُمْ اِلٰی رَبِّہِمْ رٰجِعُوْنَ» ( 23 ۔ المومنون : 60 ) وہ نیک کام کرتے ہیں صدقے خیرات کرتے ہیں لیکن پھر بھی خوف اللہ سے کانپتے رہتے ہیں [ کہ ایسا نہ ہو کہ قبول نہ ہوں] ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوال پر اس آیت کا یہی مطلب زبان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان ہوا ہے ۔(سنن ترمذی:3175،قال الشیخ الألبانی:صحیح) بعض مفسرین نے کہا ہے کہ بنیادیں ابراہیم علیہ السلام اٹھاتے تھے اور دعا اسماعیل علیہ السلام کرتے تھے لیکن صحیح یہی ہے کہ دونوں ہر ایک کام میں شریک تھے۔ صحیح بخاری شریف کی ایک روایت اور بعض اور آثار بھی اس واقعہ کے متعلق یہاں ذکر کئے جانے کے قابل ہیں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ کمر بند باندھنا عورتوں نے اسمٰعیل علیہ السلام کی والدہ محترمہ سے سیکھا ہے انہوں نے باندھا تھا کہ مائی سارہ کو ان کا نقش قدم نہ ملے انہیں اور ان کے جگر کے ٹکڑے اپنے اکلوتے فرزند اسمٰعیل علیہ السلام کو لے کر ابراہیم علیہ السلام نکلے جبکہ یہ پیارا بچہ دودھ پیتا تھا ۔ سناٹے کی آغوش میں زندگی اب جہاں پر بیت اللہ بنا ہوا ہے یہاں ایک ٹیلہ تھا اور سنسان بیابان تھا کوئی اپنے سہنے والا وہاں نہ تھا یہاں پہنچ کر ماں بیٹے کو بٹھا کر پاس تھوڑی سی کھجوریں اور مشکیزہ پانی کا رکھ کر آپ چلے گئے جب خلیل اللہ علیہ السلام نے پیٹھ موڑی اور جانے لگے تو مائی حاجرہ سلام اللہ علیہا نے آواز دی اے خلیل اللہ ہمیں اس دہشت و وحشت والے بیابان میں یکہ و تنہا چھوڑ کر جہاں ہمارا کوئی مونس و ہمدم نہیں آپ علیہ السلام کہاں تشریف لے جا رہے ہیں ؟ لیکن ابراہیم علیہ السلام نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ اس طرف توجہ تک نہ کی ، منہ موڑ کر بھی نہ دیکھا ۔ حضرت ہاجرہ سلام اللہ علیہا کے باربار کہنے پر بھی آپ علیہ السلام نے التفات نہ فرمایا تو آپ سلام اللہ علیہا فرمانے لگیں اللہ کے خلیل آپ ہمیں کسے سونپ چلے ؟ آپ علیہ السلام نے کہا اللہ تعالیٰ کو کہا اے خلیل اللہ کیا اللہ تعالیٰ کا آپ کو یہ حکم ہے ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا ہاں مجھے اللہ کا یہی حکم ہے یہ سن کر ام اسمٰعیل سلام اللہ علیہا کو تسکین ہو گئی اور فرمانے لگیں پھر تشریف لے جائیے وہ اللہ جل شانہ ہمیں ہرگز ضائع نہ کرے گا اسی کا بھروسہ اور اسی کا سہارا ہے ۔ ہاجرہ لوٹ گئیں اور اپنے کلیجہ کی ٹھنڈک اپنی آنکھوں کے نور ابن نبی اللہ کو گود میں لے کر اس سنسان بیابان میں اس ہو کے عالم میں لاچار اور مجبور ہو کر بیٹھ رہیں ۔ ابراہیم علیہ السلام جب ثنیہ کے پاس پہنچے اور یہ معلوم کر لیا کہ اب ہاجرہ پیچھے نہیں اور وہاں سے یہاں تک ان کی نگاہ کام بھی نہیں کر سکتی تو بیت اللہ شریف کی طرف متوجہ ہو کر ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور کہا آیت «رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ» ( 14 ۔ ابراہیم : 37 ) الہٰ العالمین میں نے اپنے بال بچوں کو ایک غیر آباد جنگل میں تیرے برگزیدہ گھر کے پاس چھوڑا ہے تاکہ وہ نماز قائم کریں تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف جھکا دے اور انہیں پھلوں کی روزیاں دے شاید وہ شکر گزاری کریں آپ علیہ السلام نے یہ دعا کر کے حکم اللہ بجا لا کر اپنی اہل و عیال کو اللہ کے سپرد کر کے چلے گئے ۔ ادھر ہاجرہ سلام اللہ علیہا صبر و شکر کے ساتھ بچے سے دل بہلانے لگییں جب تھوڑی سی کھجوریں اور ذرا سا پانی ختم ہو گیا اب اناج کا ایک دانہ پاس ہے نہ پانی کا گھونٹ خود بھی بھوکی پیاسی ہیں اور بچہ بھی بھوک پیاس سے بیتاب ہے یہاں تک کہ اس معصوم نبی زادے کا پھول سا چہرہ کمھلانے لگا اور وہ تڑپنے اور بلکنے لگا مامتا بھری ماں کبھی اپنی تنہائی اور بے کس ی کا خیال کرتی ہے کبھی اپنے ننھے سے اکلوتے بچے کا یہ حال بغور دیکھتی ہے اور سہمی جاتی ہے معلوم ہے کہ کسی انسان کا گزر اس بھیانک جنگل میں نہیں ، میلوں تک آبادی کا نام و نشان نہیں کھانا تو کہاں ؟ پانی کا ایک قطرہ بھی میسر نہیں آ سکتا ۔ آخر اس ننھی سی جان کا یہ ابتر حال نہیں دیکھا جاتا تو اٹھ کر چلی جاتی ہیں اور صفا پہاڑ جو پاس ہی تھا اس پر چڑھ جاتی ہیں اور میدان کی طرف نظر دوڑاتی ہیں کہ کوئی آتا جاتا نظر آ جائے لیکن نگاہیں مایوسی کے ساتھ چاروں طرف ڈالتی ہیں اور کسی کو بھی نہ دیکھ کر پھر وہاں سے اتر آتی ہیں اور اسی طرح درمیانی تھوڑا سا حصہ دوڑ کر باقی حصہ جلدی جلدی طے کر کے پھر صفا پر چڑھتی ہیں اسی طرح سات مرتبہ کرتی ہیں ہر بار آ کر بچہ کو دیکھ جاتی ہیں اس کی حالت ساعت بہ ساعت بگڑتی جا رہی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں صفا مروہ کی سعی جو حاجی کرتے ہیں اس کی ابتداء یہی سے ساتویں مرتبہ جب ہاجرہ مروہ پر آتی ہیں تو کچھ آواز کان میں پڑتی ہے آپ خاموش ہو کر احتیاط کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوتی ہیں کہ یہ آواز کیسی ؟ آواز پھر آتی ہے اور اس مرتبہ صاف سنائی دیتی ہے تو آپ آواز کی طرف لپک کر آتی ہیں اور اب جہاں زمزم ہے وہاں جبرائیل علیہ السلام کو پاتی ہیں ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام پوچھتے ہیں تم کون ہو ؟ آپ جواب دیتی ہیں میں ہاجرہ ہوں میں ابراہیم علیہ السلام کے لڑکے کی ماں ہوں فرشتہ پوچھتا ہے ابراہیم علیہ السلام تمہیں اس سنسان بیابان میں کسے سونپ گئے ہیں ؟ آپ سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں اللہ کو فرمایا پھر تو وہ کافی ہے ہاجرہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا اے غیبی شخص آواز تو میں نے سن لی کیا کچھ میرا کام بھی نکلے گا ؟ جبرائیل علیہ السلام نے اپنی ایڑی زمین پر رگڑی وہیں زمین سے ایک چشمہ پانی کا ابلنے لگا ۔ حضرت ہاجرہ علیہما السلام نے ہاتھ سے اس پانی کو مشک میں بھرنا شروع کیا مشک بھر کر پھر اس خیال سے کہ پانی ادھر ادھر بہ کر نکل نہ جائے آس پاس باڑ باندھنی شروع کر دی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ ام اسمٰعیل علیہ السلام پر رحم کرے اگر وہ اس طرح پانی کو نہ روکتیں تو زمزم کنویں کی مثل میں نہ ہوتا بلکہ وہ ایک جاری نہر کی صورت میں ہوتا اب ہاجرہ نے پانی پیا اور بچہ کو بھی پلایا اور دودھ پلانے لگیں فرشتے نے کہ دیا کہ تم بے فکر رہو اللہ تمہیں ضائع نہ کرے گا جہاں تم بیٹھی ہو یہاں اللہ کا ایک گھر اس بچے اور اس کے باپ کے ہاتھوں بنے گا ہاجرہ اب یہیں رہ پڑیں زمزم کا پانی پیتیں اور بچہ سے دل بہلاتیں بارش کے موسم میں پانی کے سیلاب چاروں طرف سے آتے لیکن یہ جگہ ذرا اونچی تھی ادھر ادھر سے پانی گزر جاتا ہے اور یہاں امن رہتا کچھ مدت کے بعد جرہم کا قبیلہ خدا کے راستہ کی طرف سے اتفاقاً گزرا اور مکہ شریف کے نیچے کے حصہ میں اترا ان کی نظریں ایک آبی پرند پر پڑیں تو آپس میں کہنے لگے یہ پرندہ تو پانی کا ہے اور یہاں پانی کبھی نہ تھا ہماری آمدورفت یہاں سے کئی مرتبہ ہوئی یہ تو خشک جنگل اور چٹیل میدان ہے یہاں پانی کہاں ؟ چنانچہ انہوں نے اپنے آدمی اصلیت معلوم کرنے کے لیے بھیجے انہوں نے واپس آ کر خبر دی کہ وہاں تو بہترین اور بہت سا پانی ہے اب وہ سب آئے اور ام اسمعٰیل سلام اللہ علیہا سے عرض کرنے لگے کہ مائی صاحبہ اگر آپ اجازت دیں تو ہم بھی یہاں ٹھہر جائیں پانی کی جگہ ہے آپ نے فرمایا ہاں شوق سے رہو لیکن پانی پر قبضہ میرا ہی رہے گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہاجرہ تو چاہتی تھیں کہ کوئی ہم جنس مل جائے چنانچہ یہ قافلہ یہاں رہ پڑا ۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام بھی بڑے ہو گئے ان سب کو آپ علیہ السلام سے بڑی محبت ہو گئی یہاں تک کہ آپ علیہ السلام بالغ ہوئے تو انہی میں نکاح بھی کیا اور انہی سے عربی بھی سیکھی مائی ہاجرہ علیہما السلام کا انتقام یہیں ہوا جب ابراہیم علیہ السلام کو اللہ کی طرف سے اجازت ملی تو آپ علیہ السلام اپنے لخت جگر کی ملاقات کے لیے تشریف لائے بعض روایات میں ہے کہ آپ علیہ السلام کا یہ آنا جانا براق پر ہوتا تھا ملک شام سے آتے تھے اور پھر واپس جاتے تھے یہاں آئے تو اسمٰعیل علیہ السلام گھر پر نہ ملے اپنی بہو سے پوچھا کہ وہ کہاں ہیں ؟ تو جواب ملا کہ کھانے پینے کی تلاش میں یعنی شکار کو گئے ہیں آپ علیہ السلام نے پوچھا تمہارا کیا حال ہے ؟ کہا برا حال ہے بڑی تنگی اور سختی ہے فرمایا اچھا تمہارے خاوند آویں تو انہیں سلام کہنا اور کہہ دینا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالیں ۔ حضرت ذبیح اللہ علیہ السلام جب واپس آئے تو گویا آپ علیہ السلام کو کچھ انس سا معلوم ہوا پوچھنے لگے کیا کوئی صاحب تشریف لائے تھے ؟ بیوی نے کہا ہاں ایسی ایسی شکل و شباہت کے ایک عمر رسیدہ بزرگ آئے تھے ؟ آپ کی نسبت پوچھا میں نے کہا وہ شکار کی تلاش میں باہر گئے ہیں پھر پوچھا کہ گزران کیسی چلتی ہے ؟ میں نے کہا بڑی سختی اور تنگی سے گزر اوقات ہوتی ہے پوچھا کچھ مجھ سے کہنے کو بھی فرما گئے ہیں ؟ بیوی نے کہا ہاں کہہ گئے کہ وہ جب وہ آئیں میرا سلام کہنا اور کہہ دینا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالیں آپ علیہ السلام فرمانے لگے بیوی سنو یہ میرے والد صاحب تھے اور جو فرما گئے ہیں اس سے مطلب یہ ہے کہ ( چونکہ تم نے ناشکری کی ) میں تم کو الگ کر دوں جاؤ میں نے تمہیں طلاق دی انہیں طلاق دے کر آپ علیہ السلام نے اسی قبیلہ میں اپنا دوسرا نکاح کر لیا ۔ ایک مدت کے بعد پھر ابراہیم علیہ السلام باجازت الٰہی یہاں آئے اب کی مرتبہ بھی اتفاقاً ذبیح علیہ السلام سے ملاقات نہ ہوئی بہو سے پوچھا تو جواب ملا کہ ہمارے لیے رزق کی تلاش میں شکار کو گئے ہیں آپ آئیے ، تشریف رکھئے جو کچھ حاضر ہے تناول فرمائیے ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا یہ تو بتاؤ کہ گزر بسر کیسی ہوتی ہے ؟ کیا حال ہے ؟ جواب ملا الحمدللہ ہم خیریت سے ہیں اور بفضل رب کعبہ کشادگی اور راحت ہے اللہ کا بڑا شکر ہے ابراہیم علیہ السلام نے کہا تمہاری خوراک کیا ہے ؟ کہا گوشت پوچھا تم پیتے کیا ہو ؟ جواب ملا پانی آپ علیہ السلام نے دعا کی کہ پروردگار انہیں گوشت اور پانی میں برکت دے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر اناج ان کے پاس ہوتا اور یہ کہتیں تو خلیل علیہ السلام ان کے لیے اناج کی برکت کی دعا بھی کرتے اب اس دعا کی برکت سے اہل مکہ صرف گوشت اور پانی پر گزر کر سکتے ہیں ۔ اور لوگ نہیں کر سکتے آپ علیہ السلام نے فرمایا اچھا میں تو جا رہا ہوں تم اپنے میاں کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ وہ اپنی چوکھٹ کو ثابت اور آباد رکھیں بعد ازاں اسمٰعیل علیہ السلام آئے سارا واقعہ معلوم ہوا آپ علیہ السلام نے فرمایا یہ میرے والد مکرم تھے مجھے حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں الگ نہ کروں ( تم شکر گزار ہو ) ۔ تعمیر کعبہ پھر ایک مدت کے بعد ابراہیم علیہ السلام کو اجازت ملی اور آپ تشریف لائے تو اسمٰعیل علیہ السلام کو زمزم کے پاس ایک ٹیلے پر تیر سیدھے کرتے ہوئے پایا ، اسمٰعیل علیہ السلام باپ کو دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے اور با ادب ملے جب باپ بیٹے ملے تو خلیل اللہ علیہ السلام نے فرمایا اے اسماعیل مجھے اللہ کا ایک حکم ہوا ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا ابا جان جو حکم ہوا ہو اس کی تعمیل کیجئے ، کہا بیٹا تمہیں بھی میرا ساتھ دینا پڑے گا ۔ عرض کرنے لگے میں حاضر ہوں اس جگہ اللہ کا ایک گھر بنانا ہے کہنے لگے بہت بہتر اب باپ بیٹے نے بیت اللہ کی نیو رکھی اور دیواریں اونچی کرنی شروع کیں ، اسمٰعیل علیہ السلام پتھر لا لا کر دیتے جاتے تھے اور ابراہیم چنتے جاتے تھے جب دیواریں قدرے اونچی ہو گئیں تو ذبیح اللہ یہ پتھر یعنی مقام ابراہیم کا پتھر لائے ، اس اونچے پتھر پر کھڑے ہو کر ابراہیم علیہ السلام کعبہ کے پتھر رکھتے جاتے تھے اور دونوں باپ بیٹا یہ دعا مانگتے جاتے تھے کہ باری تعالیٰ تو ہماری اس ناچیز خدمت کو قبول فرمانا تو سننے اور جاننے والا ہے.(صحیح بخاری:3365) یہ روایت اور کتب حدیث میں بھی ہے کہیں مختصر اور کہیں مفصلاً ایک صحیح حدیث میں یہ بھی ہے کہ ذبیح اللہ کے بدلے جو دنبہ ذبح ہوا تھا اس کے سینگ بھی کعبۃ اللہ میں تھے ۔ (مسند احمد:601/1:صحیح) اوپر کی لمبی روایت بروایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی مروی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام جب بھی کعبۃ اللہ شریف کے قریب پہنچے تو آپ علیہ السلام نے اپنے سر پر ایک بادل سا ملاحظہ فرمایا جس میں سے آواز آئی کہ اے ابراہیم جہاں جہاں تک اس بادل کا سایہ ہے وہاں تک کی زمین بیت اللہ میں لے لو کمی زیادتی نہ ہو اس روایت میں یہ بھی ہے کہ بیت اللہ بنا کر وہاں ہاجرہ اور اسمٰعیل علیہ السلام کو چھوڑ کر آپ علیہ السلام تشریف لے گئے لیکن روایت ہی ٹھیک ہے اور اس طرح تطبیق بھی ہو سکتی ہے کہ بناء پہلے رکھدی تھی لیکن بنایا بعد میں ، اور بنانے میں بیٹا اور باپ دونوں شامل تھے جیسے کہ قرآن پاک کے الفاظ بھی ہیں ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ لوگوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بناء بیت اللہ شروع کیفیت دریافت کی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ میرا گھر بناؤ ابراہیم علیہ السلام گھبرائے کہ مجھے کہاں بنانا چاہیئے کس طرح اور کتنا بڑا بنانا چاہیئے وغیرہ اس پر سکینہ نازل ہوا اور حکم ہوا کہ جہاں یہ ٹھہرے وہاں تم میرا گھر بناؤ آپ علیہ السلام نے بنانا شروع کیا جب حجر اسود کی جگہ پہنچے تو اسمٰعیل علیہ السلام سے کہا بیٹا کوئی اچھا سا پتھر ڈھونڈ لاؤ تو دیکھا کہ آپ اور پتھر وہاں لگا چکے ہیں ، پوچھا یہ پتھر کون لایا ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا اللہ کے حکم سے یہ پتھر جبرائیل علیہ السلام آسمان سے لے کر آئے ، سیدنا کعب احبار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اب جہاں بیت اللہ ہے وہاں زمین کی پیدائش سے پہلے پانی پر بلبلوں کے ساتھ جھاگ سی تھی یہیں سے زمین پھیلائی گئی ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کعبۃ اللہ بنانے کے لیے خلیل علیہ السلام آرمینیہ سے تشریف لائے تھے حضرت سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں حجر اسود جبرائیل علیہ السلام ہند سے لائے تھے اس وقت وہ سفید چمکدار یاقوت تھا جو آدم علیہ السلام کے ساتھ جنت سے اترا تھا ھر لوگوں کے خطا کار ہاتھوں سے اس کا رنگ سیاہ ہو گیا اس روایت میں یہ بھی ہے کہ نیو اور بنیادیں ہلے سے موجود تھیں انہی پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بناء کی ۔ مسند عبدالرزاق میں ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام ہند میں اترے تھے اس وقت ان کا قد لمبا تھا زمین میں آنے کے بعد فرشتوں کی تسبیح نماز و دعا وغیرہ سنتے تھے جب قد گھٹ گیا اور وہ پیاری آوازیں آنی بند ہو گئیں تو آپ علیہ السلام گھبرانے لگے حکم ہوا کہ مکہ کی طرف رکھا اور اسے اپنا گھر قرار دیا ، آدم علیہ السلام یہاں طواف کرنے لگے اور مانوس ہوئے گھبراہٹ جاتی رہی حضرت نوح علیہ السلام کے طوفان کے زمانہ میں یہ پھر اٹھ گیا اور ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں پھر اللہ تعالیٰ نے بنوایا آدم علیہ السلام نے یہ گھر حرا طور زیتا جبل لبنان طور سینا اور جودی ان پانچ پہاڑوں سے بنایا تھا لیکن ان تمام روایتوں میں تفاوت ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» بعض روایتوں میں ہے کہ زمین کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے بیت اللہ بنایا گیا تھا ، ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ بیت اللہ کے نشان بتانے کے لیے جبرائیل علیہ السلام چلے تھے اس وقت یہاں جنگلی درختوں کے سوا کچھ نہ تھا کس دور عمالیق کی آبادی تھی یہاں آپ علیہ السلام ام اسماعیل کو اور اسمٰعیل علیہ السلام کو ایک چھپر تلے بٹھا گے ایک اور روایت میں ہے کہ بیت اللہ کے چار ارکان ہیں اور ساتویں زمین تک وہ نیچے ہوتے ہیں ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ذوالقرنین جب یہاں پہنچے اور ابراہیم علیہ السلام کو بیت اللہ بناتے ہوئے دیکھا تو پوچھا یہ کیا کر رہے ہو ؟ تو انہوں نے کہا اللہ کے حکم سے اس کا گھر بنا رہے ہیں پوچھا کیا دلیل ؟ کہا یہ بھیڑیں گواہی دیں گی پانچ بھیڑوں نے کہا ہم گواہی دیتی ہیں کہ یہ دونوں اللہ کے مامور ہیں ، ذوالقرنین خوش ہو گئے اور کہنے لگے میں نے مان لیا ۔ الرزقی کی تاریخ مکہ میں ہے کہ ذوالقرنین نے خلیل اللہ علیہ السلام اور ذبیح اللہ علیہ السلام کے ساتھ بیت اللہ کا طواف کیا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» صحیح بخاری میں ہے قواعد بنیاد اور اساس کو کہتے ہیں یہ قاعدہ کی جمع ہے قرآن میں اور جگہ آیت «وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ الّٰتِیْ لَا یَرْجُوْنَ نِکَاحًا فَلَیْسَ عَلَیْہِنَّ جُنَاحٌ اَنْ یَّضَعْنَ ثِیَابَہُنَّ غَیْرَ مُتَبَرِّجٰتٍ بِزِیْنَۃٍ» ( 24 ۔ النور : 60 ) بھی آیا ہے اس کا مفرد بھی قاعدۃ ہے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نہیں دیکھتیں کہ تمہاری قوم نے جب بیت اللہ بنایا تو قواعد ابراہیم علیہ السلام سے گھٹا دیا میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ اسے بڑھا کر اصلی بنا پر کر دیں فرمایا کہ اگر تیری قوم کا اسلام تازہ اور ان کا زمانہ کفر کے قریب نہ ہوتا تو میں ایسا کر لیتا ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو جب یہ حدیث پہنچی تو فرمانے لگے شاید یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجر اسود کے پاس کے دوستونوں کو چھوتے نہ تھے(صحیح بخاری:4484) صحیح مسلم شریف میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اے عائشہ رضی اللہ عنہا اگر تیری قوم کا جاہلیت کا زمانہ نہ ہوتا تو میں کعبہ کے خزانہ کو اللہ کی راہ میں خیرات کر ڈالتا اور دروازے کو زمین دوز کر دیتا اور حطیم کو بیت اللہ میں داخل کر دیتا ۔ (صحیح مسلم:1333) صحیح بخاری میں یہ بھی ہے کہ میں اس کا دوسرا دروازہ بھی بنا دیتا ایک آنے کے لیے اور دوسرا جانے کے لیے چنانچہ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں ایسا ہی کیا ۔ (صحیح بخاری:126) اور ایک روایت میں ہے کہ اسے میں دوبارہ بنائے ابراہیمی علیہ السلام پر بناتا ۔ (صحیح مسلم:398) دوسری روایت میں ہے کہ ایک دروازہ مشرق رخ کرتا اور دوسرا مغرب رخ اور چھ ہاتھ حطیم کو اس میں داخل کر لیتا جسے قریش نے باہر کر دیا ہے ۔ (صحیح مسلم:1333) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے پانچ سال پہلے قریش نے نئے سرے سے کعبہ بنایا تھا اس کا مفصل ذکر ملاحظہ ہو اس بناء میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی شریک تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پینتیس سال کی تھی اور پتھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اٹھاتے تھے محمد بن اسحاق بن یسار رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک پینتیس سال کی ہوئی اس وقت قریش نے کعبۃ اللہ کو نئے سرے سے بنانے کا ارادہ کیا ایک تو اس لیے کہ اس کی دیواریں بہت چھوٹی تھیں چھت نہ تھی دوسرے اس لیے بھی کہ بیت اللہ کا خزانہ چوری ہو گیا تھا جو بیت اللہ کے بیچ میں ایک گہرے گڑھے میں رکھا ہوا تھا یہ مال ” دویک “ کے پاس ملا تھا جو خزائمہ کے قبیلے بنی ملیح بن عمرو کا مولی تھا ۔ ممکن ہے چوروں نے یہاں لا رکھا ہو لیکن اس کے ہاتھ اس چوری کی وجہ سے کاٹے گئے ایک اور قدرتی سہولت بھی اس کے لیے ہو گئی تھی کہ روم کے تاجروں کی ایک کشتی جس میں بہت اعلیٰ درجہ کی لکڑیاں تھیں وہ طوفان کی وجہ سے جدہ کے کنارے آ لگی تھی یہ لکڑیاں چھت میں کام آ سکتی تھیں اس لیے قریشیوں نے انہیں خرید لیا اور مکہ کے ایک بڑھئی جو قبطی قبیلہ میں سے تھا کو چھت کا کام سونپا یہ سب تیاریاں تو ہو رہی تھیں لیکن بیت اللہ کو گرانے کی ہمت نہ پڑتی تھی اس کے قدرتی اسباب بھی مہیا ہو گئے بیت اللہ کے خزانہ میں ایک بڑا اژدھا تھا جب کبھی لوگ اس کے قریب بھی جاتے تو وہ منہ پھاڑ کر ان کی طرف لپکتا تھا یہ سانپ ہر روز اس کنویں سے نکل کر بیت اللہ کی دیواروں پر آ بیٹھتا تھا ایک روز وہ بیٹھا ہوا تھا تو اللہ تعالیٰ نے ایک بہت بڑا پرندہ بھیجا وہ اسے پکڑ کر لے اڑا قریشیوں نے سمجھ لیا کہ ہمارا ارادہ مرضی مولا کے مطابق ہے لکڑیاں بھی ہمیں مل گئیں بڑھئی بھی ہمارے پاس موجود ہے سانپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے دفع کیا ۔ اب انہوں نے مستقل ارادہ کر لیا کہ کعبۃ اللہ کو گرا کر نئے سرے سے بنائیں ۔ سب سے پہلے ابو وھب بن عمرو کھڑا ہوا اور ایک پتھر کعبۃ اللہ کو گرا کر اتارا جو اس کے ہاتھ سے اڑ کر پھر وہیں جا کر نصب ہو گیا اس نے تمام قریشیوں سے خطاب کر کے کہا سنو بیت اللہ کے بنانے میں ہر شخص اپنا طیب اور پاک مال خرچ کرے ۔ اس میں زناکاری کا روپیہ سودی بیوپار کا روپیہ ظلم سے حاصل کیا ہوا مال نہ لگانا ، بعض لوگ کہتے ہیں یہ مشورہ ولید بن مغیرہ نے دیا تھا ۔ (سیرت ابن ھشام:204/1) اب بیت اللہ کے حصے بانٹ لیے گئے دروازہ کا حصہ بنو عبد مناف اور زہرہ بنائیں حجر اسود اور رکن یمانی کا حصہ بنی مخزوم بنائیں ۔ قریش کے اور قبائل بھی ان کا ساتھ دیں ۔ کعبہ کا پچھلا حصہ بنو جمح اور سہم بنائیں ۔ حطیم کے پاس کا حصہ بنو عبدالدار بن قصی اور بنو اسد بن عبد العزی اور بنو عدی بن کعب بنائیں ۔ یہ مقرر کر کے اب بنی ہوئی عمارت کو ڈھانے کے لیے چلے لیکن کسی کو ہمت نہیں پڑتی کہ اسے مسمار کرنا شروع کرے آخر ولید بن مغیرہ نے کہا لو میں شروع کرتا ہوں کدال لے کر اوپر چڑھ گئے اور کہنے لگے اے اللہ تجھے خوب علم ہے کہ ہمارا ارادہ برا نہیں ہم تیرے گھر کو اجاڑنا نہیں چاہتے بلکہ اس کے آباد کرنے کی فکر میں ہیں ۔ یہ کہہ کر کچھ حصہ دونوں رکن کے کناروں کا گرایا قریشیوں نے کہا بس اب چھوڑو اور رات بھر کا انتظار کرو اگر اس شخص پر کوئی وبال آ جائے تو یہ پتھر اسی جگہ پر لگا دینا اور خاموش ہو جانا اور اگر کوئی عذاب نہ آئے تو سمجھ لینا کہ اس کا گرانا اللہ کو ناپسند نہیں پھر کل سب مل کر اپنے اپنے کام میں لگ جانا چنانچہ صبح ہوئی اور ہر طرح خیریت رہی اب سب آ گئے اور بیت اللہ کی اگلی عمارت کو گرا دیا یہاں تک کہ اصلی نیو یعنی بناء ابراہیمی تک پہنچ گئے یہاں سبز رنگ کے پتھر تھے کے ہلنے کے ساتھ ہی تمام مکہ کی زمین ہلنے لگی تو انہوں نے سمجھ لیا کہ انہیں جدا کر کے اور پتھر ان کی جگہ لگانا اللہ کو منظور نہیں اس لیے ہمارے بس کی بات نہیں اس ارادے سے باز رہے اور ان پتھروں کو اسی طرح رہنے دیا ۔ (سیرت ابن ھشام:207/1) پھر ہر قبیلہ نے اپنے اپنے حصہ کے مطابق علیحدہ علیحدہ پتھر جمع کئے اور عمارت بننی شروع ہوئی یہاں تک کہ باقاعدہ جنگ کی نوبت آ گئی فرقے آپس میں کھچ گئے اور لڑائی کی تیاریاں میں مشغول ہو گئے بنو عبد دار اور بنو عدی نے ایک طشتری میں خون بھر کر اس میں ہاتھ ڈبو کر حلف اٹھایا کہ سب کٹ مریں گے لیکن حجر اسود کسی کو نہیں رکھنے دیں گے اسی طرح چار پانچ دن گزر گئے پھر قریش مسجد میں جمع ہوئے کہ آپس میں مشورہ اور انصاف کریں تو ابو امیہ بن مغیرہ نے جو قریش میں سب سے زیادہ معمر اور عقلمند تھے کہا سنو لوگو تم اپنا منصف کسی کو بنا لو وہ جو فیصلہ کرے سب منظور کر لو ۔ لیکن پھر منصف بنانے میں بھی اختلاف ہو گا اس لیے ایسا کرو کہ اب جو سب سے پہلے یہاں مسجد میں آئے وہی ہمارا منصف ۔ اس رائے پر سب نے اتفاق کر لیا ۔ اب منتظر ہیں کہ دیکھیں سب سے پہلے کون آتا ہے ؟ پس سب سے پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی یہ لوگ خوش ہو گئے اور کہنے لگے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ منظور ہے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر رضامند ہیں ۔ یہ تو امین ہیں یہ تو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں ۔ پھر سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہہ سنایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ کوئی موٹی اور بڑی سی چادر لاؤ وہ لے آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود اٹھا کر اپنے دست مبارک سے اس میں رکھا پھر فرمایا ہر قبیلہ کا سردار آئے اور اس کپڑے کا کونہ پکڑ لے اور اس طرح ہر ایک حجر اسود کے اٹھانے کا حصہ دار بنے اس پر سب لوگ بہت ہی خوش ہوئے اور تمام سرداروں نے اسے تھام کر اٹھا لیا ۔ جب اس کے رکھنے کی جگہ تک پہنچے تو اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لے کر اپنے ہاتھ سے اسی جگہ رکھ دیا اور وہ نزاع و اختلاف بلکہ جدال و قتال رفع ہو گیا اور اس طرح اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اپنے گھر میں اس مبارک پتھر کو نصب کرایا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونے سے پہلے قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امین کہا کرتے تھے ۔ اب پھر اوپر کا حصہ بنا اور کعبۃ اللہ کی عمارت تمام ہوئی ابن اسحاق موررخ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کعبہ اٹھارہ ہاتھ کا تھا ۔ قباطی کا پردہ چڑھایا جاتا تھا پھر چادر کا پردہ چڑھنے لگا ۔ ریشمی پردہ سب سے پہلے حجاج بن یوسف نے چڑھایا ۔ (سیرت ابن ھشام:211/1) کعبہ کی یہی عمارت رہی یہاں تک کہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی خلافت کی ابتدائی زمانہ میں ساٹھ سال کے بعد یہاں آگ لگی اور کعبہ جل گیا ۔ یہ یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کی ولایت کا آخری زمانہ تھا اور اس نے سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کا مکہ میں محاصرہ کر رکھا تھا ۔ ان دنوں میں خلیفہ مکہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اپنی خالہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے جو حدیث سنی تھی اسی کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمنا پر بیت اللہ کو گرا کر ابراہیمی قواعد پر بنایا حطیم اندر شامل کر لیا ، مشرق و مغرب دو دروازے رکھے ایک اندر آنے کا دوسرا باہر جانے کا اور دروازوں کو زمین کے برابر رکھا آپ کی امارت کے زمانہ تک کعبۃ اللہ یونہی رہا یہاں تک کہ ظالم حجاج کے ہاتھوں آپ شہید ہوئے ۔ اب حجاج نے عبدالملک بن مروان کے حکم سے کعبہ کو پھر توڑ کر پہلے کی طرح بنا لیا ۔ صحیح مسلم شریف میں یزید بن معاویہ کے زمانہ میں جب کہ شامیوں نے مکہ شریف پر چڑھائی کی اور جو ہونا تھا وہ ہوا ۔ اس وقت سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیت اللہ کو یونہی چھوڑ دیا ۔ موسم حج کے موقع پر لوگ جمع ہوئے انہوں نے یہ سب کچھ دیکھا بعد ازاں آپ رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے مشورہ لیا کہ کیا کعبۃ اللہ سارے کو گرا کر نئے سرے سے بنائیں یا جو ٹوٹا ہوا ہے اس کی اصلاح کر لیں ؟ تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا میری رائے یہ ہے کہ آب جو ٹوٹا ہوا ہے اسی کی مرمت کر دیں باقی سب پرانا ہے رہنے دیں ۔ آپ نے فرمایا اگر تم میں سے کسی کا گھر جل جاتا تو وہ تو خوش نہ ہوتا جب تک اسے نئے سرے سے نہ بناتا پھر تم اپنے رب عزوجل کے گھر کی نسبت اتنی کمزور رائے کیوں رکھتے ہو ؟ اچھا میں تین دن تک اپنے رب سے استخارہ کروں گا پھر جو سمجھ میں آئے گا وہ کروں گا ۔ تین دن کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کی رائے یہی ہوئی کہ باقی ماندہ دیواریں بھی توڑی جائیں اور از سرے نو کعبہ کی تعمیر کی جائے چنانچہ یہ حکم دے دیا لیکن کعبے کو توڑنے کی کسی کی ہمت نہیں پڑتی تھی ۔ ڈر تھا کہ جو پہلے توڑنے کے لیے چڑھے گا اس پر عذاب نازل ہو گا لیکن ایک باہمت شخص چڑھ گیا اور اس نے ایک پتھر توڑا ۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ اسے کچھ ایذاء نہیں پہنچی تو اب ڈھانا شروع کیا اور زمین تک برابر یکساں صاف کر دیا اس وقت چاروں طرف ستون کھڑے کر دئیے تھے اور ایک کپڑا تان دیا تھا ۔ اب بناء بیت اللہ شروع ہوئی ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا وہ کہتی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اگر لوگوں کا کفر کا زمانہ قریب نہ ہوتا اور میرے پاس خرچ بھی ہوتا جس سے میں بنا سکوں تو حطیم میں سے پانچ ہاتھ بیت اللہ میں لے لیتا اور کعبہ کے دو دروازے کرتا ایک آنے کا اور ایک جانے کا ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہ روایت بیان کر کے فرمایا اب لوگوں کے کفر کا زمانہ قریب کا نہیں رہا ان سے خوف جاتا رہا اور خزانہ بھی معمور ہے میرے پاس کافی روپیہ ہے پھر کوئی وجہ نہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمنا پوری نہ کروں چنانچہ پانچ ہاتھ حطیم اندر لے لی اور اب جو دیوار کھڑی کی تو ٹھیک ابراہیمی بنیاد نظر آنے لگی جو لوگوں نے اپنی آنکھوں دیکھ لی اور اسی پر دیوار کھڑی کی بیت اللہ کا طول اٹھارہ ہاتھ تھا اب جو اس میں پانچ ہاتھ اور بڑھ گیا تو چھوٹا ہو گیا اس لیے طول میں دس ہاتھ اور بڑھایا گیا اور دو دروازے بنائے گئے ایک اندر آنے کا دوسرا باہر جانے کا ۔ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حجاج نے عبدالملک کو لکھا اور ان سے مشورہ لیا کہ اب کیا کیا جائے ؟ یہ بھی لکھ بھیجا کہ مکہ شریف کے عادلوں نے دیکھا ہے ٹھیک ابراہیم علیہ السلام کی نیو پر کعبہ تیار ہوا ہے لیکن عبدالملک نے جواب دیا کہ طول کو تو باقی رہنے دو اور حطیم کو باہر کر دو اور دوسرا دروازہ بند کر دو ۔ حجاج نے اس حکم کے مطابق کعبہ کو تڑوا کر پھر اسی بنا پر بنا دیا ۔ (صحیح مسلم:1333) لیکن سنت طریقہ یہی تھا کہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی بناء کو باقی رکھا جاتا اس لیے کہ حضور علیہ السلام کی چاہت یہی تھی لیکن اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خوف تھا کہ لوگ بدگمانی نہ کریں ابھی نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہیں ۔ لیکن یہ حدیث عبدالملک بن مروان کو نہیں پہنچی تھی اس لیے انہوں نے اسے تڑوا دیا جب انہیں حدیث پہنچی تو رنج کرتے تھے اور کہتے تھے کاش کہ ہم یونہی رہنے دیتے اور نہ تڑاتے چنانچہ صحیح مسلم شریف کی ایک اور حدیث میں ہے کہ حارث بن عبیداللہ جب ایک وفد میں عبدالملک بن مروان کے پاس پہنچے تو عبدالملک نے کہا میرا خیال ہے کہ ابو حبیب یعنی سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ( اپنی خالہ ) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ حدیث سنی ہو گی حارث نے کہا ضرور سنی تھی خود میں نے بھی ام المومنین رضی اللہ عنہا سے سنا ہے پوچھا تم نے کیا سنا ہے ؟ کہا میں نے سنا ہے آپ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مجھ سے فرمایا کہ عائشہ تیری قوم نے بیت اللہ کو تنگ کر دیا ۔ اگر تیری قوم کا زمانہ شرک کے قریب نہ ہوتا تو میں نئے سرے سے ان کی کمی کو پورا کر دیتا لیکن آؤ میں تجھے اصلی نیو بتا دوں شاید کسی وقت تیری قوم پھر اسے اس کی اصلیت پر بنانا چاہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیقہ رضی اللہ عنہا کو حطیم میں سے قریباً سات ہاتھ اندر داخل کرنے کو فرمایا اور فرمایا میں اس کے دروازے بنا دیتا ایک آنے کے لیے اور دوسرا جانے کے لیے اور دونوں دروازے زمین کے برابر رکھتا ایک مشرق رخ رکھتا دوسرا مغرب رخ جانتی بھی ہو کہ تمہاری قوم نے دروازے کو اتنا اونچا کیوں رکھا ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم مجھے خبر نہیں فرمایا محض اپنی اونچائی اور بڑائی کے لیے کہ جسے چاہیں اندر جانے دیں اور جسے چاہیں داخل نہ ہونے دیں جب کوئی شخص اندر جانا چاہتا تو اسے اوپر سے دھکا دے دیتے وہ گر پڑتا اور جسے داخل کرنا چاہتے اسے ہاتھ تھام کر اندر لے لیتے ۔ عبدالملک نے کہا اسے حارث نے خود سنا ہے تو تھوڑی دیر تک تو عبدالملک اپنی لکڑی ٹکائے سوچتے رہے پھر کہنے لگے کاش کہ میں اسے یونہی چھوڑ دیتا ۔ (مسند احمد:253/6:صحیح) صحیح مسلم شریف کی ایک اور حدیث میں ہے کہ عبدالملک بن مروان نے ایک مرتبہ طواف کرتے ہوئے عبداللہ کو کوس کر کہا کہ وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ پر اس حدیث کا بہتان باندھنا تھا تو حارث نے روکا اور شہادت دی کہ وہ سچے تھے میں نے بھی صدیقہ سے یہ سنا ہے اب عبدالملک افسوس کرنے لگے اور کہنے لگے اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوتا تو میں ہرگز اسے نہ توڑتا ۔ (صحیح مسلم:1333) قاضی عیاض اور امام نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے خلیفہ ہارون رشید نے امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا تھا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں پھر کعبہ کو ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے بنائے ہوئے کے مطابق بنا دوں ، حضرت امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا تھا کہ اگر آپ اجازت دیں تو پھر کعبہ کو سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے بنائے ہوئے کے مطابق بنا دوں ، حضرت امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا آپ ایسا نہ کیجئے ایسا نہ ہو کہ کعبہ بادشاہوں کا ایک کھلونا بن جائے جو آئے اپنی طبیعت کے مطابق توڑ پھوڑ کرتا رہے چنانچہ خلیفہ اپنے ارادے سے باز رہے یہی بات ٹھیک بھی معلوم ہوتی ہے کہ کعبہ کو باربار چھیڑنا ٹھیک نہیں ۔ بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کعبہ کو دو چھوٹی پنڈلیوں والا ایک حبشی پھر خراب کرے گا ۔ (صحیح بخاری:1591) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں گویا میں اسے دیکھ رہا ہوں وہ سیاہ فام ایک ایک پتھر الگ الگ کر دے گا ۔ (صحیح بخاری:1595) اس کا غلاف لے جائے گا اور اس کا خزانہ بھی وہ ٹیڑھے ہاتھ پاؤں والا اور گنجا ہو گا میں دیکھ رہا ہوں کہ گویا وہ کدال بجا رہا ہے اور برابر ٹکڑے کر رہا ہے ۔ (مسند احمد:220/2:صحیح بالشواھد) غالباً یہ ناشدنی واقعہ ( جس کے دیکھنے سے ہمیں محفوظ رکھے ) یاجوج ماجوج کے نکل چکنے کے بعد ہو گا ۔ صحیح بخاری شریف کی ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم یاجوج ماجوج کے نکلنے کے بعد بھی بیت اللہ شریف کا حج و عمرہ کرو گے ۔ (صحیح بخاری:1593) ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام اپنی دعا میں کہتے ہیں کہ ہمیں مسلمان بنا لے یعنی مخلص بنا لے مطیع بنا لے موحد بنا ، ہر شر سے بچا ۔ ریا کاری سے محفوظ رکھ خشوع وخضوع عطا فرما ۔ حضرت سلام بن ابی مطیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں مسلمان تو تھے ہی لیکن اسلام کی ثابت قدمی طلب کرتے ہیں جس کے جواب میں ارشاد باری ہوا «قد فعلت» میں نے تمہاری یہ دعا قبول فرمائی پھر اپنی اولاد کے لیے بھی یہی دعا کرتے ہیں جو قبول ہوتی ہے ۔ بنی اسرائیل بھی آپ علیہ السلام کی اولاد میں ہیں اور عرب بھی قرآن میں ہے آیت «وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓی اُمَّۃٌ یَّہْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِہٖ یَعْدِلُوْنَ» ( 7 ۔ الاعراف : 159 ) یعنی موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں ایک جماعت حق عدل پر تھی ۔ لیکن روانی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب کے لیے یہ دعا گو عام طور پر دوسروں پر بھی مشتمل ہو اس لیے کہ اس کے بعد دوسری دعا میں ہے کہ ان میں ایک رسول بھیج اور اس رسول سے مراد محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں چنانچہ یہ دعا بھی پوری ہوئی جیسے فرمایا آیت «ہُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الْأُمِّیِّینَ رَسُولًا مِّنْہُمْ» ( 62-الجمعہ : 2 ) لیکن اس سے آپ کی رسالت خاص نہیں ہوتی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت عام ہے عرب و عجم سب کے لیے جیسے آیت «قُلْ یٰٓاَیٰھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا» ( 7 ۔ الاعراف : 158 ) کہہ دو کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ۔ ان دونوں نبیوں کی یہ دعا جیسی ہے ایسی ہی ہر متقی کی دعا ہونی چاہیئے ۔ جیسے قرآنی تعلیم ہے کہ مسلمان یہ دعا کریں آیت «رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا» ( 25 ۔ الفرقان : 74 ) اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولادوں سے ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا ۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی محبت کی دلیل ہے انسان یہ چاہے کہ میری اولاد میرے بعد بھی اللہ کی عابد رہے ۔ اور جگہ اس دعا کے الفاظ یہ ہیں آیت «وَّاجْنُبْنِیْ وَبَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ» ( 14 ۔ ابراہیم : 35 ) اے اللہ مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں انسان کے مرتے ہی اس کے اعمال ختم ہو جاتے ہیں مگر تین کام جاری رہتے ہیں صدقہ ، علم جس سے نفع حاصل کیا جائے اور نیک اولاد جو دعا کرتی رہے (صحیح مسلم:1631) پھر آپ علیہ السلام دعا کرتے ہیں کہ ہمیں مناسک دکھا یعنی احکام و ذبح وغیرہ سکھا ۔ جبرائیل علیہ السلام آپ علیہ السلام کو لے کر کعبہ کی عمارت پوری ہو جانے کے بعد صفا پر آتے ہیں پھر مروہ پر جاتے ہیں اور فرماتے ہیں یہ شعائر اللہ ہیں پھر منیٰ کی طرف لے چلے عقبہ پر شیطان درخت کے پاس کھڑا ہوا ملا تو فرمایا تکبیر پڑھ کر اسے کنکر مارو ۔ ابلیس یہاں سے بھاگ کر جمرہ وسطی کے پاس جا کھڑا ہوا ۔ یہاں بھی اسے کنکریاں ماریں تو یہ خبیث ناامید ہو کر چلا گیا ۔ اس کا ارادہ تھا کہ حج کے احکام میں کچھ دخل دے لیکن موقع نہ ملا اور مایوس ہو گیا یہاں سے آپ کو مشعر الحرام میں لائے پھر عرفات میں پہنچایا پھر تین مرتبہ پوچھا ” کہو سمجھ لیا “ ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ” ہاں “ (تفسیر ابن ابی حاتم:387/1) دوسری روایت میں تین جگہ شیطان کو کنکریاں مارنی مروی ہیں اور یہ شیطان کو سات سات کنکریاں ماری ہیں ۔