اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
(اے پیغمبر) تم ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو یا نہ کرو (اب ان کی بخشش ہونے والی نہیں) تم اگر ستر مرتبہ بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو (یعنی سینکڑوں مرتبہ ہی دعا کیوں نہ کرو) جب بھی اللہ انہیں کبھی نہیں بخشے گا، یہ اس بات کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اللہ (کا مقررہ قانون یہ ہے کہ) وہ دائرہ ہدایت سے نکل جانے والوں پر (کامیابی و سعادت کی) راہ کبھی نہیں کھولتا۔
منافق کے لئے استغفار کرنے کی ممانعت ہے فرماتا ہے کہ یہ منافق اس قابل نہیں کہ تو اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو ان کے لیے اللہ سے بخشش طلب کرے ۔ ایک بار نہیں اگر تو ستر مرتبہ بھی بخشش ان کے لیے چاہے تو اللہ تعالیٰ انہیں نہیں بخشے گا ۔ یہ جو ستر کا ذکر ہے اس سے مراد صرف زیادتی ہے وہ ستر سے کم ہو یا بہت زیادہ ہو ۔ بعض نے کہا ہے کہ مراد اس سے ستر کا ہی عدد ہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” میں تو ان کے لیے ستر بار سے بھی زیادہ استغفار کروں گا تاکہ اللہ انہیں بخش دے “ ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایک اور آیت میں فرما دیا کہ ان کے لیے تیرا استغفار کرنا نہ کرنے کے برابر ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:17045:ضعیف) عبداللہ بن ابی منافق کا بیٹا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہے کہ میرا باپ نزع کی حالت میں ہے میری چاہت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لے چلیں اس کے جنازے کی نماز بھی پڑھائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ” تیرا نام کیا ہے “ ؟ اس نے کہا : ” حباب “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تیرا نام عبداللہ ہے حباب تو شیطان کا نام ہے “ ۔ اب آپ ان کے ساتھ ہو لئے ان کے باپ کو اپنا کرتہ اپنے پسینے والا پہنایا اس کی جنازے کی نماز پڑھائی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا بھی گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے جنازے پر نماز پڑھ رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ نے ستر مرتبہ کے استغفار سے ہی نہ بخشنے کو فرمایا ہے میں تو ستر بار پھر ستر بار پھر ستر بار پھر استغفار کروں گا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:17044:ضعیف)