الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ ۙ سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
جن لوگوں کا حال یہ ہے کہ خوش دلی سے خیرات کرنے والے منومنوں پر (ریا کاری کا) عیب لگاتے ہیں اور جن مومنوں کو اپنی محنت مشقت کی کمائی کے سوا اور کچھ میسر نہیں (اور اسمیں سے بھی جتنا نکال سکتے ہیں راہ حق میں خرچ کردیتے ہیں) ان پر تمسخر کرنے لگتے ہیں تو (انہیں معلوم ہوجائے کہ) دراصل اللہ کی طرف سے خود ان پر تمسخر ہورہا ہے (کہ ذلت و نامرادی کی زندگی بسر کر رہے ہیں) اور (آخرت میں) ان کے لیے عذاب دردناک ہے۔
منافقوں کا مومنوں کی حوصلہ شکنی کا ایک انداز یہ بھی منافقوں کی ایک بدخصلت ہے کہ ان کی زبانوں سے کوئی بھی بچ نہیں سکتا نہ سخی نہ بخیل ، یہ عیب جو ، بدگو لوگ بہت برے ہیں ۔ اگر کوئی شخص بڑی رقم اللہ کی راہ میں دے تو یہ اسے ریاکار کہنے لگتے ہیں اور اگر کوئی مسکین اپنی مالی کمزوری کی بنا پر تھوڑا بہت دے تو یہ ناک بھوں چڑھا کر کہتے ہیں لو ان کی اس حقیر چیز کا بھی اللہ بھوکا تھا ۔ چنانچہ جب صدقات دینے کی آیت اتری ہے تو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے اپنے صدقات لیے ہوئے حاضر ہوتے ہیں ایک صاحب نے دل کھول کر بڑی رقم دی ، اسے تو ان منافقوں نے ریاکار کا خطاب دیا اور ایک صاحب بیچارے مسکین آدمی تھی صرف ایک صاع اناج لائے تھے ، انہیں کہا کہ اس کے اس صدقے کی اللہ کو کیا ضرورت پڑی تھی ؟ اس کا بیان اس آیت میں ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4668) ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقیع میں فرمایا کہ ” جو صدقہ دے گا میں اس کی بابت قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے گواہی دوں گا “ ۔ اس وقت ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے اپنے عمامہ میں سے کچھ دینا چاہا لیکن پھر لپیٹ لیا ۔ اتنے میں ایک صاحب جو سیاہ رنگ اور چھوٹے قد کے تھے ایک اونٹنی لے کر آگے بڑھے جس سے زیادہ اچھی اونٹنی بقیع بھر میں نہ تھی ۔ کہنے لگے : ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ اللہ تعالیٰ کے نام پر خیرات ہے “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بہت اچھا “ اس نے کہا : ” سنبھال لیجئے“ ۔ اس پر کسی نے کہا اس سے تو اونٹنی ہی اچھی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لیا اور فرمایا : ” تو جھوٹا ہے یہ تجھ سے اور اس سے تین گنا اچھا ہے افسوس ! سینکڑوں اونٹ رکھنے والے تجھ جیسوں پر افسوس ۔ تین مرتبہ یہی فرمایا ، مگر وہ جو اپنے مال کو اس طرح اس طرح کرے “ ، اور لپیں بھر بھر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے دائیں بائیں اشارہ کیا ، یعنی راہ اللہ ہر نیک کام میں خرچ کرے ۔ پھر فرمایا : ” انہوں نے فلاح پالی جو کم مال والے اور زیادہ عبادت والے ہوں “ ۔ (مسند احمد:34/5:ضعیف) سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ چالیس 40 اوقیہ چاندی لائے اور ایک غریب انصاری ایک صاع اناج لائے ، منافقوں نے ایک کو ریاکار بتلایا دوسرے کے صدقے کو حقیر بتلایا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:17018:ضعیف) ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے لوگوں نے مال خیرات دینا اور جمع کرنا شروع کیا ۔ ایک صاحب ایک صاع کھجوریں لے آئے اور کہنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس کھجوروں کے دو صاع تھے ایک میں نے اپنے اور اپنے بچوں کے لیے روک لیا اور ایک لے آیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی جمع شدہ مال میں ڈال دینے کو فرمایا اس پر منافق بکواس کرنے لگے کہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو اس سے بے نیاز ہے ۔ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا : ” میرے پاس ایک سو اوقیہ سونا ہے سب کو صدقہ کرتا ہوں “ ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ” ہوش میں بھی ہو “ ؟ آپ نے جواب دیا ہاں ہوش میں ہوں ۔ فرمایا : ” پھر کیا کر رہا ہے “ ؟ آپ نے فرمایا : ” سنو ! میرے پاس آٹھ ہزار ہیں جن میں سے چار ہزار تو میں اللہ تعالیٰ کو قرض دے رہا ہوں اور چار ہزار اپنے لیے رکھ لیتا ہوں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ تجھے برکت دے جو تو نے رکھ لیا ہے اور جو تو نے خرچ کر دیا ہے ۔ منافق ان پر باتیں بنانے لگے کہ پھول گئے اپنی سخاوت دکھانے کے لیے اتنی بڑی رقم دے دی ۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتار کر بڑی رقم اور چھوٹی رقم والوں کی سچائی اور ان منافقوں کا موذی پن ظاہر کر دیا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:17019:ضعیف) بنو عجلان کے عاصم بن عدی رضی اللہ عنہما نے بھی اس وقت بڑی رقم خیرات کی تھی ایک سو وسق کجھوریں دی تھیں ۔ منافقوں نے اسے ریاکاری پر محمول کیا تھا ۔ اپنی محنت مزدوری کی تھوڑی سی خیرات دینے والے ابوعقیل رضی اللہ عنہ تھے ۔ یہ قبیلہ بنو انیف کے شخص تھے ان کے ایک صاع خیرات پر منافقوں نے ہنسی اور ہجو کی تھی ۔ اور روایت میں ہے کہ یہ چندہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کی ایک جماعت کو جہاد پر روانہ کرنے کے لیے کیا تھا ۔ اس میں ہے کہ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے دو ہزار دیئے تھے اور دو ہزار رکھے تھے دوسرے بزرگ نے رات بھر کی محنت میں دو صائع کھجوریں حاصل کر کے ایک صائع رکھ لیں اور ایک صائع دے دیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:17029:ضعیف) یہ سیدنا ابوعقیل رضی اللہ عنہ تھے رات بھر اپنی پیٹھ پر بوجھ ڈھوتے رہے تھے ۔ ان کا نام حجاب تھا ۔ اور قول ہے کہ عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن ثعلبہ تھا ۔ پس منافقوں کے اس تمسخر کی سزا میں اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے یہی بدلہ لیا ، ان منافقوں کے لیے اخروی المناک عذاب ہیں ۔ اور ان کے اعمال کا ان عملوں جیسا ہی برا بدلہ ہے ۔