وَعَدَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ۚ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّهِ أَكْبَرُ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے اللہ کی طرف سے (نعیم ابدی کے) باغوں کا وعدہ ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی (اور وہ اس لیے کبھی خشک ہونے والے نہیں) وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، نیز ان کے لیے ہمیشگی کے باغوں میں پاک مسکن ہوں گے اور ان سب سے بڑح کر (نعمت یہ کہ) اللہ کی خوشنودیوں کا ان پر نزول ہوگا۔
مومنوں کو نیکی کے انعامات مومنوں کی ان نیکیوں پر جو اجر و ثواب انہیں ملے گا اس کا بیان ہو رہا ہے کہ ابدی نعمتیں ، ہمیشگی کی راحتیں ، باقی رہنے والی جنتیں ، جہاں قدم قدم پر خوشگوار پانی کے چشمے ابل رہے ہیں جہاں بلند و بالاخوبصورت مزین صاف ستھرے آرائش و زیبائش والے محلات اور مکانات ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دو جنتیں تو صرف سونے کی ہیں ان کے برتن اور جو کچھ بھی وہاں ہے سب سونے ہی سونے کا ہے اور دو جنتیں چاندی کی ہیں برتن بھی اور کل چیزیں بھی ان میں اور دیدارالٰہی میں کوئی حجاب بجز اس کبریائی کی چادر کے نہیں جو اللہ جل وعلا کے چہرے پر ہے یہ جنت عدن میں ہوں گے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3878) اور حدیث میں ہے کہ مومن کے لیے جنت میں ایک خیمہ ہو گا ایک ہی موتی کا بنا ہوا اس کا طول ساٹھ میل کا ہو گا ۔ مومن کی بیویاں وہیں ہوں گی جن کے پاس یہ آتاجاتا رہے گا لیکن ایک دوسرے کو دکھائی نہ دیں گی ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4879) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ، نماز قائم رکھے ، رمضان کے روزے رکھے ، اللہ پر حق ہے کہ اسے جنت میں لے جائے اس نے ہجرت کی ہو یا اپنے وطن میں ہی رہا ہو ۔ لوگوں نے کہا : ” پھر ہم اوروں سے بھی یہ حدیث بیان کر دیں “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جنت میں ایک سو درجے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ کے مجاہدوں کے لیے بنائے ہیں ہر دو درجوں میں اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان میں ، پس جب بھی تم اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرو توجنت الفردوس طلب کرو وہ سب سے اونچی اور سب سے بہتر جنت ہے جنتوں کی سب نہریں وہیں سے نکلتی ہیں اس کی چھت رحمن کا عرش ہے ، ۱؎ (صحیح بخاری:2790) فرماتے ہیں اہل جنت جنتی بالاخانوں کو اس طرح دیکھیں گے جس طرح تم آسمان کے چمکتے دمکتے ستاروں کو دیکھتے ہو ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6555) یہ بھی معلوم رہے کہ تمام جنتوں میں خاص ایک اعلیٰ مقام ہے جس کا نام وسیلہ ہے کیونکہ وہ عرش سے بالکل ہی قریب ہے یہ جگہ ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے جب تم مجھ پر درود پڑھو تو اللہ تعالیٰ سے میرے لیے وسیلہ طلب کیا کرو ۔ پوچھا گیا وسیلہ کیا ہے ؟ فرمایا : ” جنت کا وہ اعلیٰ درجہ جو ایک ہی شخص کو ملے گا اور مجھے اللہ تعالیٰ کی ذات سے قوی امید ہے وہ شخص میں ہی ہوں “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مؤذن کی اذان کا جواب دو جیسے کلمات وہ کہتا ہے تم بھی کہو پھر مجھ پر درود پڑھو جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر اپنی دس رحمتیں نازل فرماتا ہے پھر میرے لیے وسیلہ طلب کرو اور جنت کی ایک منزل ہے جو تمام مخلوق الہیہ میں سے ایک ہی شخص کو ملے گی مجھے امید ہے کہ وہ مجھے ہی عنایت ہو گی ۱؎ (مسند احمد:7588:صحیح) جو شخص میرے لیے اللہ سے اس وسیلے کی طلب کرے اس کیلئے میری شفاعت بروز قیامت حلال ہو گئی ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:384) فرماتے ہیں میرے لیے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کرو دنیا میں یہ جو بھی میرے لیے وسیلے کی دعا کرے گا میں قیامت کے دن اس کا گواہ اور سفارشی بنوں گا ۔ ۱؎ (طبرانی:1/333:صحیح) صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمیں جنت کی باتیں سنائیے ان کی بنا کس چیز کی ہے “ ؟ فرمایا : ” سونے چاندی کی اینٹوں کی ، اس کا گارا خالص مشک ہے اس کے کنکر لوءلوء اور یاقوت ہیں ، اس کی مٹی زعفران ہے اس میں جو جائے گا وہ نعمتوں میں ہو گا جو کبھی خالی نہ ہوں وہ ہمیشہ کی زندگی پائے گا جس کے بعد موت کا کھٹکا بھی نہیں نہ اس کے کپڑے خراب ہوں نہ اس کی جوانی ڈھلے “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:304/2:صحیح) فرماتے ہیں جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جنکا اندر کا حصہ باہر سے نظر آتا ہے اور باہر کا حصہ اندر سے ۔ ایک اعرابی نے پوچھا : ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ بالاخانے کن کے لیے ہیں “ ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” جو اچھا کلام کرے ، کھانا کھلائے ، روزے رکھے ، اور راتوں کو لوگوں کے سونے کے وقت تہجد کی نماز ادا کرے “ ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1984،قال الشیخ الألبانی:صحیح) فرماتے ہیں کوئی ہے جو جنت کا شائق اور اس کے لیے محنت کرنے والا ہو ؟ واللہ ! جنت کی کوئی چار دیواری محدود کرنے والا نہیں وہ تو ایک چمکتا ہوا بقعہ نور ہے اور مہکتا ہوا گلستان ہے اور بلند و بالا پاکیزہ محلات ہیں اور جاری و ساری لہریں مارنے والی نہریں ہیں اور گدرائے ہوئے اور پکے میوؤں کے گچھے ہیں اور جوش جمال خوبصورت پاک سیرت حوریں ہیں اور بیش قیمت رنگین جوڑے ہیں ، مقام ہے ہمیشگی کا ، گھر ہے سلامتی کا ، میوے ہیں لدھے پھدے ، سبزہ ہے پھیلا ہوا ، کشادگی اور راحت ہے ، امن اور چین ہے ، نعمت اور رحمت ہے ، عالیشان خوش منظر کوشک اور حویلیاں ہیں ۔ یہ سن کر لوگ بول اٹھے کہ ” یا رسول اللہ ﷺ ! ہم سب اس جنت کے مشتاق اور اس کے حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں “ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” ان شاءاللہ کہو “ ۔ پس لوگوں نے ان شاءاللہ کہا ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4332،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پھر فرماتا ہے ان تمام نعمتوں سے اعلیٰ اور بالا نعمت اللہ کی رضا مندی ہے ۔ فرماتے ہں اللہ تعالیٰ عزوجل جنتیوں کو پکارے گا کہے گا اے اہل جنت ! وہ کہیں گے «لبیک ربنا وسعدیک والخیر فی یدیک» ۔ پوچھے گا ” کہو تم خوش ہو گئے “ ؟ وہ جواب دیں گے کہ ” خوش کیوں نہ ہوتے تو نے تو اے پروردگار ! ہمیں وہ دیا جو مخلوق میں سے کسی کو نہ ملا ہو گا “ ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ” لو میں تمہیں اس سے بہت ہی افضل و اعلیٰ چیز عطا فرماتا ہوں “ ۔ وہ کہیں گے ” اے اللہ ! اس سے بہتر چیز اور کیا ہو سکتی ہے “ ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ” سنو ! میں نے اپنی رضا مندی تمہیں عطا فرمائی آج کے بعد میں کبھی بھی تم سے ناخوش نہ ہوں گا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6549) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب جنتی جنت میں پہنچ جائیں گے اللہ عزوجل فرمائے گا کچھ اور چاہیئے تو دوں ۔ وہ کہیں گے ” اے اللہ ! جو تو نے ہمیں عطا فرما رکھا ہے اس سے بہتر تو کوئی اور چیز ہو ہی نہیں سکتی “ ، اللہ فرمائے گا ” وہ میری رضا مندی ہے جو سب سے بہتر ہے “ ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:82/1:صحیح) امام حافظ ضیاء مقدسی نے صفت جنت میں ایک مستقل کتاب لکھی ہے اس میں اس حدیث کو شرط صحیح پر بتلایا ہے ۔ واللہ اعلم ۔