إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
صدقہ کا مال (یعنی مال زکوۃ) تو اور کسی کے لیے نہیں ہے۔ صرف فقیروں کے لیے ہے، اور مسکینوں کے لیے ہے، اور ان کے لیے جو اس کی وصولی کے کام پر مقرر کیے جائیں، اور وہ کہ ان کے دلوں میں (کلمہ حق کی) الفت پیدا کرنی ہے۔ اور وہ کہ ان کی گردنیں (غلامی کی زنجیروں میں) جکڑی ہیں (اور انہیں آزاد کروانا ہے) نیز قرض داروں کے لیے (جو قرض کے بوجھ سے دب گئے ہوں، اور ادا کرنے کی طاقت نہ رکھیں) اور اللہ کی راہ میں (یعنی جہاد کے لیے اور ان تمام کاموں کے لیے جو مثل جہاد کے اعلائے کلمہ حق کے لیے ہوں) اور مسافروں کے لیے (جو اپنے گھر نہ پہنچ سکتے ہوں اور مفلسی کی حالت میں پڑگئے ہوں) یہ اللہ کی طرف سے ٹھہرائی ہوئی بات ہے اور اللہ (سب کچھ) جاننے والا (اپنے تمام حکموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔
زکوۃ اور صدقات کا مصرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ اللہ کے حکم کے تحت ہے؟ اوپر کی آیت میں ان جاہل منافقوں کا ذکر تھا جو ذات رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر تقسیم صدقات میں اعتراض کر بیٹھتے تھے ۔ اب یہاں اس آیت میں بیان فرما دیا کہ تقسیم زکوٰۃ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی پر موقوف نہیں بلکہ ہمارے بتلائے ہوئے مصارف میں ہی لگتی ہے ، ہم نے آپ اس کی تقسیم کر دی ہے کسی اور کے سپرد نہیں کی ۔ ابوداؤد میں ہے زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے سرکار نبوت میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی ایک شخص نے آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ مجھے صدقے میں سے کچھ دلوائیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نبی غیر نبی کسی کے حکم پر تقسیم زکوٰۃ کے بارے میں راضی نہیں ہوا یہاں تک کہ خود اس نے تقسیم کر دی ہے آٹھ مصرف مقرر کر دیئے ہیں اگر تو ان میں سے کسی میں ہے تو میں تجھے دے سکتا ہوں “ ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1630،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) امام شافعی وغیرہ تو فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کے مال کی تقسیم ان آٹھوں قسم کے تمام لوگوں پر کرنی واجب ہے اور امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ کا قول ہے کہ واجب نہیں بلکہ ان میں سے کسی ایک کو ہی دے دینا کافی ہے گو اور قسم کے لوگ بھی ہوں ۔ عام اہل علم کا قول بھی یہی ہے ، آیت میں بیان مصرف ہے نہ کہ ان سب کو دینے کا وجوب کا ذکر ۔ ان اقوال کی دلیلوں اور مناظروں کی جگہ یہ کتاب نہیں واللہ اعلم ۔ فقیروں کو سب سے پہلے اس لیے بیان فرمایا کہ ان کی حاجت بہت سخت ہے ۔ گو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مسکین فقیر سے بھی برے حال والا ہے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” جس کے ہاتھ تلے مال نہ ہو اسی کو فقیر نہیں کہتے بلکہ فقیر وہ بھی ہے جو محتاج ہو گرا پڑا ہو گو کچھ کھاتا پیتا کماتا بھی ہو “ ۔ ابن علیہ کہتے ہیں اس روایت میں اخلق کا لفظ ہے ۔ اخلق کہتے ہیں ہمارے نزدیک تجارت کو ، لیکن جمہور اس کے برخلاف ہیں ۔ اور بہت سے حضرات فرماتے ہیں فقیر وہ ہے جو سوال سے بچنے والا ہو ، اور مسکین وہ ہے جو سائل ہو لوگوں کے پیچھے لگنے والا اور گھروں اور گلیوں میں گھومنے والا ۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں فقیر وہ ہے جو بیماری والا ہو اور مسکین وہ ہے جو صحیح سالم جسم والا ہو ۔ ابراہیم رحمہ اللہ کہتے ہیں مراد اس سے مہاجر فقراء ہیں ۔ سفیان ثوری رحمہ اللہ کہتے ہیں یعنی دیہاتیوں کو اس میں سے کچھ نہ ملے ۔ عکرمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں مسلمان فقراء کو مساکین نہ کہو مسکین تو صرف اہل کتاب کے لوگ ہیں ۔ اب وہ حدیثیں سنئے جو ان آٹھوں قسموں کے متعلق ہیں ۔ فقراء ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” صدقہ مالدار اور تندرست توانا پر حلال نہیں “ ، ۱؎ (سنن ترمذی:652،قال الشیخ الألبانی:صحیح) دو شخصوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صدقے کا مال مانگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغور نیچے سے اوپر تک انہیں ہٹا کٹا ، قوی ، تندرست دیکھ کر فرمایا : ” اگر تم چاہو تو تمہیں دے دوں لیکن امیر شخص کا اور قوی طاقتور کماؤ شخص کا اس میں کوئی حصہ نہیں “ ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1633،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مساکین ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” مسکین یہی گھوم گھوم کر ایک لقمہ ، دو لقمے ، ایک کھجور ، دو کھجور لے کر ٹل جانے والے ہی نہیں “ ۔ لوگوں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ پھر مساکین کون لوگ ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو بےپرواہی کے برابر نہ پائے نہ اپنی ایسی حالت رکھے کہ کوئی دیکھ کر پہچان لے اور کچھ دے دے نہ کسی سے خود کوئی سوال کرے “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1479) صدقہ وصول کرنے والے یہ تحصیل دار ہیں انہیں اجرت اسی مال سے ملے گی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت دار جن پر صدقہ حرام ہے اس عہدے پر نہیں آ سکتے ۔ عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ درخواست لے کر گئے کہ ہمیں صدقہ کا عامل بنا دیجئیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر صدقہ حرام ہے یہ تو لوگوں کا میل کچیل ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1072) جن کے دل پر چائے جاتے ہیں ، ان کی کئی قسمیں ہیں بعضوں کو تو اس لیے دیا جاتا ہے کہ وہ اسلام قبول کر لیں جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوان بن امیہ کو غنیمت حنین کا مال دیا تھا حالانکہ وہ اس وقت کفر کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلا تھا اس کا اپنا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس داد و دہش نے میرے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے زیادہ محبت پیدا کر دی حالانکہ پہلے سب سے بڑا دشمن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا میں ہی تھا ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2313) بعضوں کو اس لیے دیا جاتا ہے کہ ان کا اسلام مضبوط ہو جائے اور ان کا دل اسلام پر لگ جائے ، جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین والے دن مکہ کے آزاد کردہ لوگوں کے سرداروں کو سو سو اونٹ عطا فرمائے اور ارشاد فرمایا کہ ” میں ایک کو دیتا ہوں اور دوسرے کو جو اس سے زیادہ میرا محبوب ہے نہیں دیتا اس لیے کہ ایسا نہ ہو کہ وہ اوندھے منہ جہنم میں گر پڑے “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:27) ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے کچا سونا مٹی سمیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تو آپ نے صرف چار شخصوں میں ہی تقسیم فرمایا ، اقرع بن حابس ، عیینہ بن بدر ، عقلمہ بن علاثہ اور زید خیر ، اور فرمایا : ” میں ان کی دلجوئی کے لیے انہیں دے رہا ہوں “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3344) بعض کو اس لیے بھی دیا جاتا ہے کہ اس جیسے اور لوگ بھی اسلام قبول کر لیں ۔ بعض کو اس لیے دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے آس پاس والوں سے صدقہ پہنچائے یا آس پاس کے دشمنوں کی نگہداشت رکھے اور انہیں اسلامیوں پر حملہ کرنے کا موقعہ نہ دے ۔ ان سب کی تفصیل کی جگہ احکام وفروع کی کتابیں ہیں نہ کہ تفسیر ، و اللہ اعلم ۔ عمر رضی اللہ عنہ اور عمار شعبی اور ایک جماعت کا قول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد اب یہ مصرف باقی نہیں رہا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت دے دی ہے مسلمان ملکوں کے مالک بن گئے ہیں اور بہت سے بندگان رب ان کے ماتحت ہیں ۔ لیکن اور بزرگوں کا قول ہے کہ اب بھی مولفتہ القلوب کو زکوٰۃ دینی جائز ہے ۔ فتح مکہ اور فتح ہوازن کے بعد بھی حضور علیہ الصلوۃ والتسلیم نے ان لوگوں کو مال دیا ۔ دوسرے یہ کہ اب بھی ایسی ضرورتیں پیش آ جایا کرتی ہیں ۔ آزادگی گردن کے بارے میں بہت سے بزرگ فرماتے ہیں کہ مراد اس سے وہ غلام ہیں جنہوں نے رقم مقرر کر کے اپنے مالکوں سے اپنی آزادگی کی شرط کر لی ہے انہیں مال زکوٰۃ سے رقم دی جائے کہ وہ ادا کر کے آزاد ہو جائیں ۔ اور بزرگ فرماتے ہیں کہ وہ غلام جس نے یہ شرط نہ لکھوائی ہو اسے بھی مال زکوٰۃ سے خرید کر آزاد کرنے میں کوئی ڈر خوف نہیں ۔ غرض مکاتب غلام اور محض غلام دونوں کی آزادگی زکوٰۃ کا ایک مصرف ہے احادیث میں بھی اس کی بہت کچھ فضیلت وارد ہوئی ہے یہاں تک کہ فرمایا ہے کہ آزاد کردہ غلام کے ہر ہر عضو کے بدلے آزاد کرنے والے کا ہر ہر عضو جہنم سے آزاد ہو جاتا ہے یہاں تک کہ شرمگاہ کے بدلے شرمگاہ بھی ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4715) اس لیے کہ ہر نیکی کی جزا اسی جیسی ہوتی ہے ۔ قرآن فرماتا ہے تمہیں وہی جزا دی جائے گی جو تم نے کیا ہو گا ۔ ۱؎ (37-الصافات:39) حدیث میں ہے تین قسم کے لوگوں کی مدد اللہ کے ذمے حق ہے ، وہ غازی جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہو ، وہ مکاتب غلام اور قرض دار جو ادائیگی کی نیت رکھتا ہو ، وہ نکاح کرنے والا جس کا ارادہ بدکاری سے محفوظ رہنے کا ہو ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1655،قال الشیخ الألبانی:حسن) کسی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت سے قریب اور دوزخ سے دور کر دے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نسمہ آزاد کر اور گردن خلاصی کر “ ۔ اس نے کہا کہ ” یہ دونوں ایک ہی چیز نہیں “ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں نسمہ کی آزادگی یہ ہے کہ تو اکیلا ہی کسی غلام کو آزاد کر دے اور گردن خلاصی یہ ہے کہ تو بھی اس میں جو تجھ سے ہو سکے مدد کرے “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:299/4:صحیح) قرض داران کی بھی کئی قسمیں ہیں ایک شخص دوسرے کا بوجھ اپنے اوپر لے لے کسی کے قرض کا آپ ضامن بن جائے پھر اس کا مال ختم ہو جائے یا وہ خود قرض دار بن جائے یا کسی نے برائی پر قرض اٹھایا ہو اور اب وہ توبہ کر لے پس انہیں مال زکوٰۃ دیا جائے گا کہ یہ قرض ادا کر دیں ۔ اس مسئلے کی اصل قبیصہ رضی اللہ عنہ بن مخارق ہلالی کی یہ روایت ہے کہ میں نے دوسرے کا حوالہ اپنی طرف لیا تھا پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم ٹھہرو ہمارے پاس مال صدقہ آئے گا ہم اس میں سے تمہں دیں گے “ ۔ پھر فرمایا : ” قبیصہ سن ! تین قسم کے لوگوں کو ہی سوال حلال ہے ایک تو وہ جو ضامن پڑے پس اس رقم کے پورا ہونے تک اسے سوال جائز ہے پھر سوال نہ کرے ۔ دوسرا وہ جس کا مال کسی آفت ناگہانی سے ضائع ہو جائے اسے بھی سوال کرنا درست ہے یہاں تک کہ پیٹ بھرائ ہو جائے ، تیسرا وہ شخص جس پر فاقہ گذرنے لگے اور اس کی قوم کے تین ذی ہوش لوگ اس کی شہادت کے لیے کھڑے ہو جائیں کہ ہاں بیشک فلاں شخص پر فاقے گذرنے لگے ہیں ، اسے بھی مانگ لینا جائز ہے تاوقتیکہ اس کا سہارا ہو جائے اور سامان زندگی مہیا ہو جائے ، ان کے سوا اوروں کو سوال کرنا حرام ہے اگر وہ مانگ کر کچھ لے کر کھائیں گے تو حرام کھائیں گے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1044) ایک شخص نے زمانہ نبوی میں ایک باغ خریدا قدرت الٰہی سے آسمانی آفت سے باغ کا پھل مارا گیا اس سے وہ بہت قرض دار ہو گیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قرض خواہوں سے فرمایا کہ ” تمہیں جو ملے لے لو ۔ اس کے سوا تمہارے لیے اور کچھ نہیں “ ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1556-18) آپ فرماتے ہیں کہ ” ایک قرض دار کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بلا کر اپنے سامنے کھڑا کر کے پوچھے گا کہ تو نے قرض کیوں لیا اور کیوں رقم ضائع کر دی ؟ جس سے لوگوں کے حقوق برباد ہوئے ۔ وہ جواب دے گا کہ اے اللہ ! تجھے خوب علم ہے میں نے یہ رقم کھائی نہ پی نہ اڑائی بلکہ میرے ہاں مثلاً چوری ہو گئی یا آگ لگ گئی یا کوئی اور آفت آ گئی ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرا بندہ سچا ہے آج تیرے قرض کے ادا کرنے کا سب سے زیادہ مستحق میں ہی ہوں ۔ پھر اللہ تعالیٰ کوئی چیز منگوا کر اس کی نیکیوں کے پلڑے میں رکھ دے گا جس سے نیکیاں برائیوں سے بڑھ جائیں گی اور اللہ تبارک و تعالیٰ اسے اپنے فضل و رحمت سے جنت میں لے جائے گا “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:197،198/1:ضعیف) اللہ کی راہ ، میں وہ مجاہدین غازی داخل ہیں جن کا دفتر میں کوئی حق نہیں ہوتا ۔ حج بھی اللہ کی راہ میں داخل ہے ۔ مسافر ، جو سفر میں بےسروسامان رہ گیا ہو اسے بھی مال زکوٰۃ سے اپنی رقم دی جائے جس سے وہ اپنے شہر پہنچ سکے ، گو وہ اپنے ہاں مالدار ہی ہو ۔ یہی حکم ان کا بھی ہے جو اپنے شہر سے سفر کو جانے کا قصد رکھتے ہوں لیکن مال نہ ہو تو اسے بھی سفر خرچ مال زکوٰۃ سے دینا جائز ہے جو اسے آمد و رفت کے لیے کافی ہو ۔ آیت کے اس لفظ کی دلیل کے علاوہ ابوداؤد وغیرہ کی یہ حدیث بھی اس کی دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مالدار پر زکوٰۃ حرام ہے ۔ بجز پانچ قسم کے مالداروں کے ایک تو وہ جو زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر ہو ، دوسرا وہ جو مال زکوٰۃ کی کسی چیز کو اپنے مال سے خرید لے ، تیسرا قرض دار ، چوتھا راہ الٰہی کا غازی مجاہد ، پانچواں وہ جسے کوئی مسکین بطور تحفے کے اپنی کوئی چیز جو زکوٰۃ میں اسے ملی ہو دے “ ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:1841،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور روایت ہے کہ زکوٰۃ مالدار کے لیے حلال نہیں مگر فی سبیل اللہ جو ہو اور جو مسافرت میں ہو اور جسے اس کا کوئی مسکین پڑوسی بطور تحفے ، ہدیئے کے دے یا اپنے ہاں بلا لے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1637،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) زکوٰۃ کے ان آٹھوں مصارف کو بیان فرما کر پھر ارشاد ہوتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض ہے یعنی مقدر ہے اللہ کی تقدیر ، اس کی تقسیم اور اس کا فرض کرنے سے ۔ اللہ تعالیٰ ظاہر و باطن کا عالم ہے اپنے بندوں کی مصلحتوں سے واقف ہے ، وہ اپنے قول ، فعل ، شریعت اور حکم میں حکمت والا ہے ۔ بجز اس کے کوئی بھی لائق عبادت نہیں نہ اس کے سوا کوئی کسی کا پالنے والا ہے ۔