وَمِنْهُم مَّن يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَإِن لَّمْ يُعْطَوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ
اور ان میں کچھ ایسے ہیں کہ مال زکوۃ بانٹنے میں تجھ پر عیب لگاتے ہیں (کہ تو لوگوں کی رعایت کرتا ہے) پھر حالت کی یہ ہے کہ اگر انہیں اس میں سے چیا جائے تو خوش ہوجائیں نہ دیا جائے تو بس اچانک بگڑ بیٹھیں۔
مال ودولت کے حریص منافق بعض منافق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت لگاتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مال زکوٰۃ صحیح تقسیم نہیں کرتے وغیرہ ، اور اس سے ان کا ارادہ سوائے اپنے نفع کے حصول کے اور کچھ نہ تھا ۔ انہیں کچھ مل جائے تو راضی راضی ہیں اگر یہ رہ جائیں تو بس ان کے نتھنے پھولے ہوئے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مال زکوٰۃ جب ادھر ادھر تقسیم کر دیا تو انصار میں سے کسی نے ہانک لگائی کہ یہ انصاف نہیں اس پر یہ آیت اتری ۔ اور روایت میں ہے کہ ایک نو مسلم صحرائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سونا چاندی بانٹتے ہوئے دیکھ کر کہنے لگا کہ ” اگر اللہ نے تجھے عدل کا حکم دیا ہے تو تو عدل نہیں کرتا “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تو تباہ ہو اگر میں بھی عادل نہیں تو زمین پر اور کون عادل ہو گا “ ؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس سے اور اس جیسوں سے بچو ، میری امت میں اس جیسے لوگ ہوں گے قرآن پڑھیں گے لیکن حلق سے نیچے نہیں اترے گا وہ جب نکلیں انہیں قتل کر ڈالو پھر نکلیں تو مار ڈالو پھر جب ظاہر ہوں پھر گردنیں مارو “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کی قسم نہ میں تمہیں دوں نہ تم سے روکوں میں تو ایک خازن ہوں ۔ جنگ حنین کے مال غنیمت کی تقسیم کے وقت ذوالخویصرہ حرقوص نامی ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کیا تھا اور کہا تھا تو عدل نہیں کرتا انصاف سے کام کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر میں بھی عدل نہ کروں تو تو پھر تیری بربادی کہیں نہیں جا سکتی “ ۔ جب اس نے پیٹھ پھیری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس کی نسل سے ایک قوم نکلے گی جن کی نمازوں کے مقابلے میں تمہاری نمازیں تمہیں حقیر معلوم ہوں گی اور ان کے روزوں کے مقابلے میں تم میں سے ایک اور کو اپنے روزے حقیر معلوم ہوں گے لیکن وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے ۔ تمہیں جہاں بھی وہ مل جائیں ان کے قتل میں کمی نہ کرو آسمان تلے ان مقتولوں سے بدتر مقتول اور کوئی نہیں “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3610) پھر ارشاد ہے کہ انہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں جو کچھ بھی اللہ نے دلوادیا تھا اگر یہ اس پر قناعت کرتے ، صبر و شکر کرتے اور کہتے کہ اللہ ہمیں کافی ہے وہ اپنے فضل سے اپنے رسول کے ہاتھوں ہمیں اور بھی دلوائے گا ہماری امیدیں ذات الٰہی سے وابستہ ہیں تو یہ ان کے حق میں بہتر تھا ۔ پس اس میں اللہ تعالیٰ کی تعلیم ہے کہ اللہ تعالیٰ جو دے اس پر انسان کو صبر و شکر کرنا چاہیئے توکل ذات واحد پر رکھے اسی کو کافی وافی سمجھے رغبت اور توجہ اور لالچ اور امید اور توقع اس کی ذات پاک سے رکھے ، رسول اللہ علیہ افضل الصلوۃ و التسلیم کی اطاعت میں سرمو فرق نہ کرے اور اللہ تعالیٰ سے توفیق طلب کرے کہ جو احکام ہوں انہیں بجالانے اور جو منع کام ہوں انہیں چھوڑ دینے اور جو خبریں ہوں انہیں مان لینے اور صحیح اطاعت کرنے میں وہ رہبری فرمائے ۔