أُولَٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
تو یقیناً یہی لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کے (ٹھہرائے ہوئے) راستہ پر ہیں اور یہی ہیں ( دنیا اور آخرت میں) کامیابی پانے والے
ہدایت یافتہ لوگ یعنی وہ لوگ جن کے اوصاف پہلے بیان ہوئے مثلاً غیب پر ایمان لانا ، نماز قائم رکھنا ، اللہ کے دئیے ہوئے میں سے دینا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اترا اس پر ایمان لانا ، آپ سے پہلے جو کتابیں اتریں ان کو ماننا ، دار آخرت پر یقین رکھ کر وہاں کام آنے کے لیے نیک اعمال کرنا ۔ برائیوں اور حرام کاریوں سے بچنا ۔ یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں جنہیں اللہ کی طرف سے نور ملا ، اور بیان و بصیرت حاصل ہوا اور انہی لوگوں کے لیے دنیا اور آخرت میں فلاح و نجات ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ہدایت کی تفسیر ”نور“ اور ”استقامت“ سے کی ہے اور ”فلاح“ کی تفسیر اپنی چاہت کو پا لینے اور برائیوں سے بچ جانے کی کی ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے رب کی طرف سے نور ، دلیل ، ثابت قدمی ، سچائی اور توفیق میں حق پر ہیں اور یہی لوگ اپنے ان پاکیزہ اعمال کی وجہ سے نجات ، ثواب اور دائمی جنت پانے کے مستحق ہیں اور عذاب سے محفوظ ہیں ۔ ابن جریر رحمہ اللہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ دوسرے «أُولٰئِکَ» کا اشارہ اہل کتاب کی طرف ہے جن کی صفت اس سے پہلے بیان ہو چکی ہے جیسے پہلے گزر چکا ۔ اس اعتبار سے آیت «وَالَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْکَ» ۱؎ (2-البقرۃ:4) الخ ، پہلے کی آیت سے جدا ہو گا اور مبتدا بن کر مرفوع ہو گا اور اس کی خبر آیت «وَأُولٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ» ۲؎ (2-البقرۃ:5) ہو گی لیکن پسندیدہ قول یہی ہے کہ اس کا اشارہ پہلے کے سب اوصاف والوں کی طرف ہے اہل کتاب ہوں یا عرب ہوں ۔ سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ آیت «یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ» ۳؎ (2-البقرۃ:3) سے مراد عرب ایماندار ہیں اس کے بعد کے جملہ سے مراد اہل کتاب ایماندار ہیں ۔ پھر دونوں کے لیے یہ بشارت ہے کہ یہ لوگ ہدایت اور فلاح والے ہیں ۔ اور یہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یہ آیتیں عام ہیں اور یہ اشارہ بھی عام ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مجاہد ، ابوالعالیہ ، ربیع بن انس ، اور قتادہ سے یہی مروی ہے ۔ {ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ اے اللہ کے رسول! قرآن پاک کی بعض آیتیں تو ہمیں ڈھارس دیتی ہیں اور امید قائم کرا دیتی ہیں اور بعض آیتیں کمر توڑ دیتی ہیں اور قریب ہوتا ہے کہ ہم ناامید ہو جائیں ۔ آپ نے فرمایا ”لو میں تمہیں جنتی اور جہنمی کی پہچان صاف صاف بتا دوں“ ، پھر آپ نے «الم» سے «مُفْلِحُونَ» ۴؎ (2-البقرۃ:1-5) تک پڑھ کر فرمایا یہ تو جنتی ہیں صحابہ رضی اللہ عنہم نے خوش ہو کر فرمایا «الْحَمْدُ لِلّٰہ» ہمیں امید ہے کہ ہم انہی میں سے ہوں ، پھر آیت «إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا» سے «عَظِیمٌ» ۱؎ (2-البقرۃ:6-7) تک تلاوت کی اور فرمایا یہ جہنمی ہیں ، انہوں نے کہا ہم ایسے نہیں آپ نے فرمایا ” ہاں ۔ “ } ۶؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:40/1:ضعیف)