سورة التوبہ - آیت 55

فَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُم بِهَا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

تو (دیکھو) یہ بات کہ ان لوگوں کے پاس مال و دولت ہے اور صاحب اولاد ہیں تمہیں متعجب نہ کرے، یہ تو اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ نے مال و اولاد ہی کی راہ سے انہیں دنیوی زندگی میں عذاب دینا چاہا ہے (کہ نفاق و بخل کی وجہ سے مال کا غم و بال جان ہورہا ہے اور اولاد کو اپنے سے برگشتہ اور اسلام میں ثابت قدم دیکھ کر شب و روز جل رہے ہیں) اور (باقی رہا آخرت کا معاملہ تو) ان کی جانیں اس حالت میں نکلیں گی کہ ایمان سے محروم ہوں گے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

کثرت مال و دولت عذاب بھی ہے ان کے مال و اولاد کو للچائی ہوئی نگاہوں سے نہ دیکھ ، ان کی دنیا کی اس ہیرا پھیری کی کوئی حقیقت نہ گن یہ ان کے حق میں کوئی بھلی چیز نہیں یہ تو ان کے لیے دنیوی سزا بھی ہے کہ نہ اس میں سے زکوٰۃ نکلے نہ اللہ کے نام خیرات ہو ۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں یہاں مطلب مقدم مؤخر ہے یعنی تجھے ان کے مال و اولاد اچھے نہ لگنے چاہئیں اللہ کا ارادہ اس سے انہیں اس حیات دنیا میں ہی سزا دینے کا ہے ۔ پہلا قول حسن بصری رحمہ اللہ کا ہے وہی اچھا اور قوی ہے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں ۔ اس میں یہ ایسے پھنسے رہیں گے کہ مرتے دم تک راہ ہدایت نصیب نہیں ہو گی ، یوں ہی بتدریج پکڑ لیے جائیں گے اور انہیں پتہ بھی نہ چلے گا ۔ یہی حشمت و جاہت ، مال و دولت جہنم کی آگ بن جائے گا ۔