قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ ۖ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ أَن يُصِيبَكُمُ اللَّهُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِندِهِ أَوْ بِأَيْدِينَا ۖ فَتَرَبَّصُوا إِنَّا مَعَكُم مُّتَرَبِّصُونَ
(اے پیغمبر تم ان سے) کہو : تم ہمارے لیے جس بات کا انتظار کرتے ہو (یعنی جنگ میں قتل ہوجانے کا) وہ ہمارے لیے اس کے سوا کیا ہے کہ دو خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے (یعنی فتح اور شہادت میں سے شہادت) اور ہم تمہارے لیے جس بات کے منتظر ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ اپنے یہاں سے کوئی عذاب بھیج دے یا ہمارے ہی ہاتھوں عذاب دلائی۔ تو اب (نتیجہ کا) انتظار کرو ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والے ہیں۔
شہادت ملی تو جنت، بچ گئے تو غازی مسلمانوں کے جہاد میں دو ہی انجام ہوتے ہیں اور دونوں ہر طرح اچھے ہیں ۔ اگر شہادت ملی تو جنت اپنی ہے اور اگر فتح ملی تو غنیمت و اجر ہے ۔ پس اے منافقو ! تم جو ہماری بابت انتظار کر رہے ہو وہ انہی دو اچھائیوں میں سے ایک ، ہے اور ہم جس بات کا انتظار تمہارے بارے میں کر رہے ہیں وہ دو برائیوں میں سے ایک کا ہے یعنی یا تو یہ کہ عذابِ رب براہ راست تم پر آ جائے یا ہمارے ہاتھوں سے تم پر رب کی مار پڑے کہ قتل و قید ہو جاؤ ۔ اچھا اب تم اپنی جگہ اور ہم اپنی جگہ منتظر رہیں دیکھیں پردہ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے ؟ تمہارے خرچ کرنے کا اللہ بھوکا نہیں تم خوشی سے دو تو اور ناراضگی سے دو تو وہ تو قبول فرمانے کا نہیں اس لیے کہ تم فاسق لوگ ہو ۔ تمہارے خرچ کی عدم قبولیت کا باعث کفر ہے اور اعمال کی قبولیت کی شرط کفر کا نہ ہونا بلکہ ایمان کا ہونا ہے ۔ ساتھ ہی کسی عمل میں تمہارا نیک قصد اور سچی ہمت نہیں نماز کو آتے ہو تو بھی ہارے دل سے گرتے پڑتے ، مرتے بچھڑتے ، سست اور کاہل ہو کر ۔ دیکھا دیکھی مجمع میں دو چار دے بھی دیتے ہو تو مرے جی سے ، دل کی تنگی سے ۔ صادق و مصدوق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نہیں تھکتا لیکن تم تھک جاتے ہو ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:43) اللہ پاک ہے وہ پاک چیز ہی قبول فرماتا ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1410) متقیوں کی اعمال قبول ہوتے ہیں تم فاسق ہو تمہارے اعمال قبولیت سے گرے ہوئے ہیں ۔