عَفَا اللَّهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ
(اے پیغمبر) اللہ تجھے بخشے ! تو نے ایسا کیوں کیا کہ (ان کی منافقانہ عذر دارویوں پر) انہیں (پیچھے رہ جانے کی) رخصت دے دی؟ اس وقت تک رخصت نہ دی ہوتی کہ تجھ پر کھل جاتا کون سچے ہیں اور تو معلوم کرلیتا کون جھوٹے ہیں؟
نہ ادھر کے نہ ادھر کے سبحان اللہ ! اللہ تعالیٰ کی اپنے محبوب سے کیسی پیار بھری باتیں ہو رہی ہیں ، سخت بات سنانے سے پہلے ہی معافی کا اعلان سنایا جا رہا ہے کہ اس کے بعد رخصت دینے کا عہد بھی سورۃ النور میں سونپ دیا جاتا ہے ۔ اور ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے «فَإِذَا اسْتَأْذَنُوکَ لِبَعْضِ شَأْنِہِمْ فَأْذَن لِّمَن شِئْتَ مِنْہُمْ» ۱؎ (24-النور:62) یعنی ان میں سے کوئی اگر آپ سے اپنے کسی کام اور شغل کی وجہ سے اجازت چاہے تو آپ جسے چاہیں اجازت دے سکتے ہیں ۔ یہ آیت ان کے بارے میں اتری ہے جن لوگوں نے آپس میں طے کر لیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلبی تو کریں اگر اجازت ہو جائے تو اور اچھا اور اگر اجازت نہ بھی دیں تاہم اس غزوے میں جائیں گے تو نہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر انہیں اجازت نہ ملتی تو اتنا فائدہ ضرور ہوتا کہ سچے عذر والے اور جھوٹے بہانے بنانے والے کھل جاتے ، نیک و بد میں ظاہری تمیز ہو جاتی ، اطاعت گزار تو حاضر ہو جاتے نافرمان باوجود اجازت نہ ملنے کے بھی نہ نکلتے ، کیونکہ انہوں نے تو طے کر لیا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہاں کہیں یا نہ کہیں ہم تو جہاد میں جانے کے نہیں ۔ اسی لیے جناب باری تعالیٰ نے اس کے بعد کی آیت میں فرمایا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ سچے ایماندار لوگ راہ ربانی کے جہاد سے رکنے کی اجازت تجھ سے طلب کریں ، وہ تو جہاد کو موجب قربت الہی مان کر اپنی جان و مال کے فدا کرنے کے آرزو مند رہتے ہیں اللہ تعالیٰ بھی اس متقی جماعت سے بخوبی آگاہ ہے ۔ یہ بلا عذر شرعی بہانے بنا کر جہاد سے رک جانے کی اجازت طلب کرنے والے تو بے ایمان لوگ ہیں جنہیں دار آخرت کی جزا کی کوئی امید ہی نہیں ان کے دل آج تک تیری شریعت سے شک شبہ میں ہی ہیں یہ حیران و پریشان ہیں ایک قدم ان کا آگے بڑھتا ہے تو دوسرا پیچھے ہٹتا ہے انہیں ثابت قدمی اور استقلال نہیں یہ ہلاک ہونے والے ہیں یہ نہ ادھر ہیں نہ ادھر یہ اللہ کے گمراہ کئے ہوئے ہیں تو ان کے سنوارنے کا کوئی رستہ نہ پائے گا ۔