قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ
(مسلمانو) ان سے (بلا تامل) جنگ کرو، اللہ تمہارے ہاتھوں انہیں عذاب دے گا، انہیں رسوائی میں ڈالے گا، ان پر تمہیں فتح مند کرے گا اور جماعت مومنین کے دلوں کے سارے دکھ دور کردے گا۔
مسلمان بھی آزمائیں جائیں گے یہ نا ممکن ہے کہ امتحان بغیر مسلمان بھی چھوڑ دیئے جائیں سچے اور جھوٹے مسلمان کو ظاہر کر دینا ضروری ہے ۔ «وَلِیجَۃً» کے معنی بھیدی اور دخل دینے والے کے ہیں ۔ پس سچے وہ ہیں جو جہاد میں آگے بڑھ کر حصہ لیں اور ظاہر باطن میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر خواہی اور حمایت کریں ۔ ایک قسم کا بیان دوسری قسم کو ظاہر کر دیتا تھا اس لیے دوسری قسم کے لوگوں پر بیان چھوڑ دیا ایسی عبارتیں شاعروں کے شعروں میں بھی ہیں ۔ اور جگہ قرآن کریم ہے کہ کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ وہ صرف یہ کہنے سے چھوڑ دیئے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش ہو گی ہی نہیں حالانکہ اگلے مومنوں کی بھی ہم نے آزمائش کی یاد رکھو اللہ تعالیٰ سچے اور جھوٹوں کو ضرور الگ کر دے گا ۔ ۱؎ (29-العنکبوت:3،2) اور آیت میں اسی مضمون کو «أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّۃَ» ۱؎ (3-آل عمران:142) کے لفظوں سے بیان فرمایا ہے ۔ اور آیت میں ہے «مَّا کَانَ اللہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِینَ» ۱؎ (3-آل عمران:179) اللہ ایسا نہیں کہ تم مومنوں کو تمہاری حالت پر ہی چھوڑ دے اور امتحان کر کے یہ نہ معلوم کر لے کہ خبیث کون ہے اور طیب کون ہے ؟ پس جہاد کے مشروع کرنے میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ کھرے کھوٹے کی تمیز ہو جاتی ہے ۔ گو اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے جو ہو گا وہ بھی اسے معلوم ہے اور جو نہیں ہوا وہ جب ہو گا تب کس طرح ہو گا یہ بھی وہ جانتا ہے چیز کے ہونے سے پہلے ہی اسے اس کا علم حاصل ہے اور ہر چیز کی ہر حالت سے وہ واقف ہے لیکن وہ چاہتا ہے کہ دنیا پر بھی کھرا کھوٹا ، سچا جھوٹا ظاہر کر دے ۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں نہ اس کے سوا کوئی پروردگار ہے نہ اس کی قضاء و قدر اور ارادے کو کوئی بدل سکتا ہے ۔