سورة التوبہ - آیت 13

أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَّكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُم بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ أَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَوْهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(مسلمانو) کیا تم ایسے لوگوں سے جنگ نہیں کرتے جنہوں نے اپنے عہد و پیمان کی قسمیں توڑ ڈالیں، جنہوں نے اللہ کے رسول کو اس کے وطن سے نکال باہر کرنے کے منصوبے کیے اور پھر تمہاری برخلاف لڑائی میں پہلی بھی انہی کی طرف سے ہوئی؟ کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ (اگر ڈرتے ہو تو تم مومن نہیں کیونکہ) اگر مومن ہو تو اللہ اس بات کا زیادہ سزا وار ہے کہ اس کا ڈر تمہارے دلوں میں بسا ہوا۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

ظالموں کو ان کے کیفر کردار کو پہنچاؤ مسلمانوں کو پوری طرح جہاد پر آمادہ کرنے کے لیے فرما رہا ہے کہ یہ عہد شکن قسمیں توڑنے والے کفار وہی ہیں جنہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جلا وطن کرنے کی پوری ٹھان لی تھی چاہتے تھے کہ قید کر لیں یا قتل کر ڈالیں یا دیس نکالا دے دیں ان کے مکر سے اللہ کا مکر کہیں بہتر تھا ۔ ۱؎ (8-الأنفال:30) صرف ایمان کی بناء پر دشمنی کر کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اور مومنوں کو وطن سے خارج کرتے تھے بھڑ بھڑا کر اُٹھ کھڑے ہو جاتے تھے کہ تجھے مکہ مکرمہ سے نکال دیں ۔ برائی کی ابتداء بھی انہیں کی طرف سے ہے ۔ بدر کے دن لشکر لے کر نکلے معلوم ہو چکا تھا کہ قافلہ بچ کر چلا گیا ہے ۔ لیکن تاہم غرور و فخر سے ربانی لشکر کو شکست دینے کے ارادے سے مسلمانوں سے بھڑ گئے ۔ جیسے کہ پورا واقعہ اس سے پہلے بیان ہو چکا ہے ۔ انہوں نے عہد شکنی کی اور اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیفوں سے جنگ کی بنو بکر کی خزاعہ کے خلاف مدد کی اس خلاف وعدہ کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر لشکر کشی کی ان کی خوب سرکوبی کی اور مکہ فتح کر لیا ۔ فالحمدللہ ۔ فرماتا ہے کہ تم ان نجس لوگوں سے خوف کھاتے ہو ۔ اگر تم مومن ہو تو تمہارے دل میں بجز اللہ تعالیٰ کے کسی کا خوف نہ ہونا چاہیئے وہی اس کے لائق ہے کہ اس سے ایماندار ڈرتے رہیں ۔ اور آیت میں ہے ان سے نہ ڈرو صرف مجھ سے ہی ڈرتے رہو میرا غلبہ ، میری سلطنت ، میری سزاء ، میری قدرت ، میری ملکیت بیشک اس قابل ہے کہ ہر وقت ہر دل میری ہیبت سے لزرتا رہے تمام کام میرے ہاتھ میں ہیں جو چاہوں کر سکتا ہوں اور کر گذرتا ہوں ۔ میری منشا کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا ۔ مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت کا راز بیان ہو رہا ہے کہ اللہ قادر تھا جو عذاب چاہتا ان پر بھیج دیتا لیکن اس کی منشاء یہ ہے کہ تمہارے ہاتھوں انہیں سزا دے ان کی بربادی تم آپ کرو تمہارے دل کی خود بھڑاس نکل جائے اور تمہیں راحت و آرام شادمانی و کامرانی حاصل ہو ۔ یہ بات کچھ انہی کے ساتھ مخصوص نہ تھی بلکہ تمام مومنوں کے لیے بھی ہے ۔ خصوصاً خزاعہ کا قبیلہ جن پر خلاف عہد قریش اپنے حلیفوں میں مل کر چڑھ دوڑے ان کے دل اسی وقت ٹھنڈے ہوں گے ان کے غبار اسی وقت دھلیں گے جب مسلمانوں کے ہاتھوں کفار نیچے ہوں ۔ ابن عساکر میں ہے کہ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا غضبناک ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ناک پکڑ لیتے اور فرماتے عویش! یہ دعا کرو « اللَّہُمَّ رَبَّ النَّبِیَّ مُحَمَّدٍ اغْفِرْ ذَنْبِی ، وَأَذْہِبْ غَیْظَ قَلْبِی وَأَجِرْنِی مِنْ مُضِلاتِ الْفِتَنِ» اے اللہ ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردگار میرے گناہ بخش اور میرے دل کا غصہ دور کر اور مجھے گمراہ کن فتنوں سے بچالے ۔ ۱؎ (الموسوعہ الحدیثیہ للشعیب الأناؤط:26576: ضعیف) اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کی چاہے توبہ قبول فرما لے ۔ وہ اپنے بندوں کی تمام تر مصلحتوں سے خوب آگاہ ہے ۔ اپنے تمام کاموں میں اپنے شرعی احکام میں اپنے تمام حکموں میں حکمت والا ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے جو ارادہ کرتا ہے حکم دیتا ہے وہ عادل و حاکم ہے ظلم سے پاک ہے ایک ذرے برابر بھلائی برائی ضائع نہیں کرتا بلکہ اس کا بدلہ دنیا اور آخرت میں دیتا ہے ۔