سورة التوبہ - آیت 9

اشْتَرَوْا بِآيَاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَصَدُّوا عَن سَبِيلِهِ ۚ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ان لوگوں نے اللہ کی آیتیں ایک بہت ہی حقیر قیمت پر بیچ ڈالیں (یعنی ہوائے نفس کے تابع ہوگئے اور اللہ کی آیتوں پر یقین نہیں کیا) پس اس کی راہ سے لوگوں کو روکنے لگے (افسوس ان پر) کیا ہی برا ہے جو یہ لوگ کرتے رہے ہیں۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

جہاد ہی راہ اصلاح ہے مشرکوں کی مذمت کے ساتھ ہی مسلمانوں کو ترغیب جہاد دی جا رہی ہے کہ ان کافروں نے دنیائے خسیس کو آخرت نفیس کے بدلے پسند کر لیا ہے خود راہ رب سے ہٹ کر مومنوں کو بھی ایمان سے روک رہے ہیں ان کے اعمال بہت ہی بد ہیں یہ تو مومنوں کو نقصان پہنچانے کے ہی درپے ہیں نہ انہیں رشتے داری کا خیال نہ معاہدے کا پاس ۔ یہ تو حد سے تجاوز کر گئے ہیں ۔ ہاں اب بھی سچی توبہ اور نماز و زکوٰۃ کی پابندی انہیں تمہارا بنا سکتی ہے ۔ چنانچہ بزار کی حدیث میں ہے کہ جو دنیا کو اس حال میں چھوڑے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادتیں خلوص کے ساتھ کر رہا ہو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناتا ہو نماز و زکوٰۃ کا پابند ہو تو اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہو کر ملے گا ۔ یہی اللہ تعالیٰ کا وہ دین ہے جسے انبیاء علیہم السلام لاتے رہے اور اسی کی تبلیغ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ کرتے رہے ۔ اس سے پہلے کہ باتیں پھیل جائیں اور خواہشیں بڑھ جائیں اس کی تصدیق کتاب اللہ میں موجود ہے کہ اگر وہ توبہ کر لیں یعنی بتوں کو اور بت پرستی کو چھوڑ دیں اور نمازی اور زکوٰۃ دینے والے بن جائیں تو تم ان کے راستے چھوڑ دو ۔ ۱؎ (9-التوبۃ:5) اور آیت میں ہے کہ پھر تو یہ تمہارے دینی بھائی ہیں ۔ ۱؎ (9-التوبۃ:11) امام بزار رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ” میرے خیال سے تو مرفوع حدیث وہیں پر ختم ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے رضامند ہو کر ملے گا اس کے بعد کا کلام راوی حدیث ربیع بن انس رحمہ اللہ علیہ کا ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم “ ۔