وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُن فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ
اور (دیکھو) جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے وہ بھی (راہ کفر میں) ایک دوسرے کے کارساز و رفیق ہیں۔ اگر تم ایسا نہ کرو گے (یعنی باہمی ولایت اور بھائی چارگی کا جو حکم دیا گیا ہے اور وفائے عہد اور اعانت مسلمین کی جو تلقین کی گئی ہے اس پر کاربند نہیں رہو گے) تو ملک میں فتنہ پیدا ہوجائے گا اور بڑی ہی خرابی پھیلے گی۔
دو مختلف مذاہب والے آپس میں دوست نہیں ہو سکتے اوپر مومنوں کے کارنامے اور رفاقت و ولایت کا ذکر ہوا اب یہاں کافروں کی نسبت بھی بیان فرما کر کافروں اور مومنوں میں سے دوستانہ کاٹ دیا ۔ مستدرک حاکم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { دو مختلف مذہب والے آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے نہ مسلمان کافر کا وارث اور نہ کافر مسلمان کا وارث پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔} ۱؎ (مستدرک حاکم:240/2:صحیح) بخاری و مسلم میں بھی ہے { مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں بن سکتا ۔} ۱؎ (صحیح بخاری:6864) سنن وغیرہ میں ہے { دو مختلف مذہب والے آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:2911،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اسے امام ترمذی رحمہ اللہ حسن کہتے ہیں ۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک نئے مسلمان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد لیا کہ { نماز قائم رکھنا ، زکوٰۃ دینا ، بیت اللہ شریف کا حج کرنا ، رمضان المبارک کے روزے رکھنا اور جب اور جہاں شرک کی آگ بھڑک اٹھے تو اپنے آپ کو ان کا مقابل اور ان سے برسر جنگ سمجھنا ۔} ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:16353:صحیح بالشواھد)۔ یہ روایت مرسل ہے اور مفصل روایت میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرکین میں ٹھہرا رہے ۔ کیا وہ دونوں جگہ لگی ہوئی آگ نہیں دیکھتا ؟ } ۱؎ (سنن ابوداود:2645،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابوداؤد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جو مشرکوں سے خلا ملا رکھے اور ان میں ٹھہرا رہے وہ انہی جیسا ہے ۔} ۱؎ (سنن ابوداود:2787،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن مردویہ میں ہے اللہ کے رسول رسولوں کے سرتاج محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جب تمہارے پاس وہ آئے جس کے دین اور اخلاق سے تم رضامند ہو تو اس کے نکاح میں دے دو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ملک میں زبردست فتنہ فساد برپا ہو گا ۔} لوگوں نے دریافت کیا کہ یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ چاہے وہ انہیں میں رہتا ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: { جب تمہارے پاس کسی ایسے شخص کی طرف سے پیغام نکاح آئے جس کے دین اور اخلاق سے تم خوش ہو تو اس کا نکاح کر دو تین بار یہی فرمایا ۔} ۱؎ (سنن ترمذی:1084،قال الشیخ الألبانی:صحیح) آیت کے ان الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ ’ اگر تم نے مشرکوں سے علیحدگی اختیار نہ کی اور ایمان داروں سے دوستیاں نہ رکھیں تو ایک فتنہ برپا ہو جائے گا ۔ یہ اختلاط برے نتیجے دکھائے گا لوگوں میں زبردست فساد برپا ہو جائے گا ۔‘