إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ فَسَيُنفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ ۗ وَالَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ يُحْشَرُونَ
جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے وہ اپنا مال اس لیے خرچ کرتے ہیں کہ لوگوں کو خدا کی راہ سے روکیں تو یہ لوگ آئندہ بھی (اسی طرح) خرچ کریں گے لیکن پھر (وقت آئے گا کہ یہ مال خرچ کرنا) ان کے لیے سراسر پچھتاوا ہوگا اور پھر (بالاخر) مغلوب کیے جائیں گے۔ اور (یاد رکھو) جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی (اور آخر تک اس پر جمے رہے تو) وہ دوزخ کی طرف ہانکے جائیں گے۔
شکست خوردہ کفار کی سازشیں قریشیوں کو بدر میں شکست فاش ہوئی ، اپنے مردے اور اپنے قیدی مسلمانوں کے ہاتھوں میں چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ ابوسفیان اپنا قافلہ اور مال و متاع لے کر پہنچا تو عبداللہ بن ابی ربیعہ ، عکرمہ بن ابی جہل ، صفوان بن امیہ اور وہ لوگ جن کے عزیز و اقارب اس لڑائی میں کام آئے تھے ابو ابوسفیان کے پاس پہنچے اور کہا کہ آپ دیکھتے ہیں ہماری کیا درگت ہوئی ؟ اب اگر آپ رضامند ہوں تو یہ سارا مال روک لیا جائے اور اسی خزانے سے دوسری جنگ کی تیاری وسیع پیمانے پر کی جائے اور انہیں مزا چکھا دیا جائے چنانچہ یہ بات مان لی گئی اور پختہ ہوگئ ۔ اسی پر یہ آیت «إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا یُنفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ لِیَصُدٰوا عَن سَبِیلِ اللہِ »الخ اتری کہ ’ بلاشک یہ کافر لوگ اپنے مالوں کو اس لئے خرچ کر رہے ہیں کہ اللہ کی راہ سے روکیں سو یہ لوگ تو اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہی رہیں گے، پھر وہ مال ان کے حق میں باعث حسرت ہو جائیں گے۔ پھر مغلوب ہو جائیں گے اور کافر لوگوں کو دوزخ کی طرف جمع کیا جائے گا۔ ‘ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ آیت بھی بدر کے بارے میں اتری ہے ۔ الفاظ آیت کے عام ہیں گو سبب نزول خاص ہو حق کو روکنے کے لیے جو بھی مال خرچ کرے وہ آخر ندامت کے ساتھ رہ جائے گا ۔ دین کا چراغ انسانی پھونکوں سے بجھ نہیں سکتا ۔ اس خواہش کا انجام نا مرادی ہی ہے ۔ خود اللہ اپنے دین کا ناصر اور حافظ ہے ۔ اس کا کلمہ بلند ہو گا ، اس کا بول بالا ہو گا ، اس کا دین غالب ہو گا کفار منہ دیکھتے رہ جائیں گے ۔ قولہ تعالیٰ:«لِیَمِیزَ اللہُ الْخَبِیثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَیَجْعَلَ الْخَبِیثَ بَعْضَہُ عَلَیٰ بَعْضٍ فَیَرْکُمَہُ جَمِیعًا فَیَجْعَلَہُ فِی جَہَنَّمَ ۚ أُولٰئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ» سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اہلِ سعادت کا امتیاز اہلِ شقاوت سے ہے کہ مومن کافر سے ممتاز ہوجائے گا اور یہ بھی محتمل ہے کہ امتیاز سے مراد آخرت کا امتیاز ہو۔ دنیا میں الگ رسوائی اور ذلت ہو گی آخرت میں الگ بربادی اور خواری ہو گی ۔ جیتے جی یا تو اپنے سامنے اپنی پستی ذلت نکبت و ادبار اور خوری دیکھ لیں گے یا مرنے پر عذاب نار دیکھ لیں گے ۔ پستی و غلامی کی مار اور شکست ان کے ماتھے پر لکھ دی گئی ہے ۔ پھر آخری ٹھکانا جہنم ہے تاکہ اللہ شقی اور سعید کو الگ الگ کر دے ۔ برے اور بھلے کو ممتاز کر دے یہ تفریق اور امتیاز آخرت میں ہو گی اور دنیا میں بھی ۔ فرمان ہے «ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِینَ أَشْرَکُوا مَکَانَکُمْ أَنتُمْ وَشُرَکَاؤُکُمْ ۚ فَزَیَّلْنَا بَیْنَہُمْ» ۱؎ ( 10-یونس : 28 ) ، ’ قیامت کے دن ہم کافروں سے کہیں گے کہ تم اور تمہارے معبود یہیں اسی جگہ ٹھہرے رہو ۔ ‘ اور آیت میں ہے «وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَۃُ یَوْمَئِذٍ یَتَفَرَّقُونَ» ۱؎ ( 30-الروم : 14 ) ’ قیامت کے دن یہ سب جدا جدا ہو جائیں گے‘ اور آیت میں ہے«یَوْمَئِذٍ یَصَّدَّعُونَ» ۱؎ ( الروم : 43 ) ’ اس دن یہ منتشر ہو جائیں گے ‘ اور آیت میں ہے « وَامْتَازُوا الْیَوْمَ أَیٰہَا الْمُجْرِمُونَ وَلِیَعْلَمَ الَّذِینَ نَافَقُوا ۚ وَقِیلَ لَہُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللہِ أَوِ ادْفَعُوا ۖ قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّاتَّبَعْنَاکُمْ» ۱؎ ( 36-یس : 59 ) ’ اے گنہگار و تم آج نیک کاروں سے الگ ہو جاؤ ۔ ‘ اسی طرح دنیا میں بھی ایک دوسرے سے بالکل ممتاز تھے ۔ مومنوں کے اعمال ان کے اپنے ہیں اور ان سے بالکل جدا گانہ «لِیَمِیزَ» کا لام تو دلیل ہو سکتا ہے یعنی کافر اپنے مالوں کو اللہ کی راہ کی روک کیلئے خرچ کرتے ہیں تاکہ مومن و کافر میں علیحدگی ہو جائے کہ کون اللہ کا فرمانبردار ہے اور کون نافرمانی میں ممتاز ہے ؟ چنانچہ فرمان ہے «وَمَا أَصَابَکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ فَبِإِذْنِ اللہِ وَلِیَعْلَمَ الْمُؤْمِنِینَ وَلِیَعْلَمَ الَّذِینَ نَافَقُوا ۚ وَقِیلَ لَہُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللہِ أَوِ ادْفَعُوا ۖ قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّاتَّبَعْنَاکُمْ» ۱؎ ( 3-آل عمران : 166 ، 167 ) ، یعنی ’ دونوں لشکروں کی مڈبھیڑ کے وقت جو کچھ تم سے ہوا وہ اللہ کے حکم سے تھا تاکہ مومنوں اور منافقوں میں تمیز ہو جائے ان سے جب کہا گیا کہ آؤ راہ حق میں جہاد کرو یا دشمنوں کو دفع کرو تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر ہم فنون جنگ سے واقف ہوتے تو ضرور تمہارا ساتھ دیتے۔ ‘ اور آیت میں ہے « مَّا کَانَ اللہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِینَ عَلَیٰ مَا أَنتُمْ عَلَیْہِ حَتَّیٰ یَمِیزَ الْخَبِیثَ مِنَ الطَّیِّبِ ۗ وَمَا کَانَ اللہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ» ۱؎ ( 3-آل عمران : 179 ) ، یعنی ’ اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری موجودہ حالتوں پر ہی چھوڑنے والا نہیں وہ پاک اور پلید کو علیحدہ علیحدہ کرنے والا ہے ۔‘ یہ ہی نہیں کہ اللہ تمہیں اپنے غیب پر خبردار کر دے ۔ فرمان ہے «أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللہُ الَّذِینَ جَاہَدُوا مِنکُمْ وَیَعْلَمَ الصَّابِرِینَ» ۱؎ ( 3-آل عمران : 142 ) ، ’ کیا تم یہ گمان کئے بیٹھے ہو کہ یونہی جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ اب تک تو اللہ نے تم میں سے مجاہدین کو اور صبر کرنے والوں کو کھلم کھلا نہیں کیا ۔ ‘ سورۃ برات میں بھی اسی جیسی آیت موجود ہے تو مطلب یہ ہوا کہ ہم نے تمہیں کافروں کے ہاتھوں میں اس لیے مبتلا کیا ہے اور اس لیے انہیں اپنے مال باطل میں خرچ کرنے پر لگایا ہے کہ نیک و بد کی تمیز ہو جائے ۔ «فَیَجْعَلَہُ فِی جَہَنَّمَ ۚ أُولٰئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ» ’ خبیث کو خبیث سے ملا کر جمع کر کے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ دنیا و آخرت میں یہ لوگ برباد ہیں ۔‘