أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا ۗ مَا بِصَاحِبِهِم مِّن جِنَّةٍ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ
کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا؟ ان کے رفیق کو (یعنی پیغمبر اسلام کو جو انہی میں پیدا ہوا اور جس کی زندگی کی ہر بات ان کے سامنے ہے) کچھ دیوانگی تو ہیں لگ گئی ہے (کہ خواہ مخواہ ایک بات کے پیچھے پڑ کر سب کو اپنا دشمن بنا لے) وہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ (انکار و بدعملی کی پاداش سے) کھلے طور پر خبردار کردینے والا ہے۔
صداقت رسالت پر اللہ کی گواہی کیا ان کافروں نے کبھی اس بات پر غور کیا کہ «وَمَا صَاحِبُکُم بِمَجْنُونٍ» ۱؎ (81-التکویر:22) ’ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جنون کی کوئی بات بھی ہے ؟ ‘ جیسے فرمان ہے «قُلْ إِنَّمَا أَعِظُکُم بِوَاحِدَۃٍ أَن تَقُومُوا لِلہِ مَثْنَیٰ وَفُرَادَیٰ ثُمَّ تَتَفَکَّرُوا مَا بِصَاحِبِکُم مِّن جِنَّۃٍ إِنْ ہُوَ إِلَّا نَذِیرٌ لَّکُم بَیْنَ یَدَیْ عَذَابٍ شَدِیدٍ» ۱؎ (34-سبأ:46) ’ آؤ میری ایک بات تو مان لو ، ذرا سی دیر خلوص کے ساتھ اللہ کو حاضر جان کر اکیلے وکیلے غور تو کرو کہ مجھ میں کون سا دیوانہ پن ہے ؟ میں تو تمہیں آنے والے سخت خطرے کی اطلاع دے رہا ہوں کہ اس سے ہوشیار رہو ۔ ‘ جب تم یہ کرو گے تو خود اس نتیجے پر پہنچ جاؤ گے کہ میں مجنون نہیں بلکہ اللہ کا پیغام دے کر تم میں بھیجا گیا ہوں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صفا پہاڑ پر چڑھ کر قریشیوں کے ایک ایک قبیلے کا الگ الگ نام لے کر انہیں اللہ کے عذابوں سے ڈرایا اور اسی طرح صبح کر دی تو بعض کہنے لگے کہ دیوانہ ہو گیا ہے ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔