قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
(اے پیغمبر ! تم لوگوں سے) کہو اے افراد نسل انسانی ! میں تم سب کی طرف خدا کا بھیجا ہوا آیا ہوں، وہ خدا کہ آسمانوں کی اور زمین کی ساری پادشاہت اسی کے لیے ہے۔ کوئی معبود نہیں مگر اسی کی ایک ذات، وہی جلاتا ہے وہی مارتا ہے، پس اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول نبی امی پر کہ اللہ اور اسکے کلمات (یعنی اس کی تمام کتابوں) پر ایمان رکھتا ہے۔ اس کی پیروی کرو (کامیابی کی) راہ پر تم کھل جائے۔
النبی العالم اور النبی الخاتم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ اپنے نبی و رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرماتا ہے کہ تمام عرب ، عجم ، گوروں ، کالوں سے کہہ دو کہ میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں ۔ آپ کی شرافت و عظمت ہے کہ آپ خاتم الانبیاء ہیں اور تمام دنیا کے لیے صرف آپ ہی نبی ہیں ۔ جیسے فرمان قرآن ہے «قُلِ اللہُ شَہِیدٌ بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ وَأُوحِیَ إِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَکُم بِہِ وَمَن بَلَغَ» ۱؎ (6-الأنعام:19) یعنی ’ اعلان کر دے کہ مجھ میں اور تم میں اللہ گواہ ہے ۔ اس پاک قرآن کی وحی میری جانب اس لیے اتاری گئی ہے کہ میں اس سے تمہیں اور جن لوگوں تک یہ پہنچے سب کو ہوشیار کر دوں ۔ ‘ اور آیت میں ہے «وَمَن یَکْفُرْ بِہِ مِنَ الْأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُہُ» ۱؎ (11-ہود:17) یعنی ’ مخلوق کے مختلف گروہ میں سے جو بھی آپ کا انکار کرے ، اس کی وعدہ گاہ جہنم ہے ۔ ‘ اور آیت میں ہے «وَقُل لِّلَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ وَالْأُمِّیِّینَ أَأَسْلَمْتُمْ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اہْتَدَوا وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلَاغُ» ۱؎ (3-آل عمران:20) یعنی ’ اہل کتاب اور غیر اہل کتاب سے کہہ دو کہ کیا تم مانتے ہو ؟ اگر تسلیم کر لیں ، مسلمان ہو جائیں تو راہ پر ہیں ورنہ تیرے ذمے تو صرف پہنچا دینا ہی ہے ۔ ‘ اس مضمون کی اور بھی قرآنی آیتیں بکثرت ہیں اور حدیثیں تو اس بارے میں بےشمار ہیں ۔ دین اسلام کی ذرا سی بھی سمجھ جسے ہے ، وہ بالیقین جانتا اور مانتا ہے کہ آپ تمام جہان کے لوگوں کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ اس آیت کی تفسیر میں صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { اتفاق سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ میں کچھ چشمک ہو گئی ۔ سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ کو ناراض کر دیا ۔ سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ اسی حالت میں چلے گئے ۔ صدیق رضی اللہ عنہ نے درخواست کی کہ آپ معاف فرمائیں اور اللہ سے میرے لیے بخشش چاہیں لیکن عمر رضی اللہ عنہ راضی نہ ہوئے بلکہ کواڑ بند کر لیے ۔ آپ لوٹ کر دربار محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں آئے اور اس وقت اور صحابہ رضی اللہ عنہم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں موجود تھے ۔ آپ نے فرمایا : تمہارے اس ساتھی نے انہیں ناراض اور غضبناک کر دیا ۔ { عمر رضی اللہ عنہ صدیق رضی اللہ عنہ کی واپسی کے بعد بہت ہی نادم ہوئے اور اسی وقت دربار رسالت مآب میں حاضر ہو کر تمام بات کہہ سنائی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے ۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ باربار کہتے جاتے تھے کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! زیادہ ظلم تو مجھ سے سرزد ہوا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم میرے ساتھی کو میری وجہ سے چھوڑتے نہیں ؟ سنو ! جب میں نے اس آواز حق کو اٹھایا کہ لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہوں تو تم نے کہا : تو جھوٹا ہے لیکن اس ابوبکر نے کہا : آپ سچے ہیں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4640) { ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں ۔ یاد رہے کہ میں اسے فخراً نہیں کہتا ۔ میں تمام سرخ و سیاہ لوگوں کی جانب بھیجا گیا ہوں اور میری مدد مہینے بھر کے فاصلے سے صرف رعب کے ساتھ کی گئی ہے اور میرے لیے غنیمتوں کے مال حلال کر دیئے گئے ہیں حالانکہ مجھ سے پہلے وہ کسی کے لئے حلال نہیں کئے گئے تھے اور میرے لیے ساری زمین مسجد اور وضو کے لیے حلال کر دی گئی ہے اور مجھے اپنی امت کی شفاعت عطا فرمائی گئی ہے جسے میں نے ان لوگوں کے لیے مخصوص کر رکھا ہے جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ۔ } [ مسند امام احمد ] ۱؎ (مسند احمد:301/1:حسن) { عمرو بن شعیب اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ غزوہ تبوک والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تہجد کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے ، پس بہت سے صحابہ آپ کے پیچھے جمع ہو گئے کہ آپ کی چوکیداری کریں ۔ نماز کے بعد آپ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : اس رات مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے اور کسی کو نہیں دی گئیں ۔ میں تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں { مجھ سے پہلے کے تمام رسول صرف اپنی اپنی قوم کی طرف ہی نبی بنا کر بھیجے جاتے رہے ، مجھے اپنے دشمنوں پر رعب کے ساتھ مدد دی گئی ہے گو وہ مجھ سے مہینے بھر کے فاصلے پر ہوں ، وہیں وہ مرعوب ہو جاتے ہیں ۔ میرے لیے مال غنیمت حلال کیا گیا حالانکہ مجھ سے پہلے کے لوگ ان کی بہت عظمت کرتے تھے ، وہ اس مال کو جلا دیا کرتے تھے اور میرے لیے ساری زمین مسجد اور وضو کی پاک چیز بنادی گئی ہے ۔ جہاں کہیں میرے امتی کو نماز کا وقت آ جائے ، وہ تیمم کر لے اور نماز ادا کر لے ۔ مجھ سے پہلے کے لوگ اس کی عظمت کرتے تھے ، سوائے ان جگہوں کے جو نماز کے لیے مخصوص تھیں اور جگہ نماز نہیں پڑھ سکتے تھے اور پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ مجھ سے فرمایا گیا : آپ دعا کیجئے ، مانگئے کیا مانگتے ہیں ؟ ہر نبی مانگ چکا ہے تو میں نے اپنے اس سوال کو قیامت پر اٹھا رکھا ہے پس وہ تم سب کے لیے ہے اور ہر اس شخص کیلئے جو «لا الٰہ الا اللہ» کی گواہی دے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:222/2:صحیح) اس کی اسناد بہت پختہ ہے اور مسند احمد میں یہ حدیث موجود ہے ۔ مسند کی اور حدیث میں ہے کہ { میری امت میں سے جس یہودی یا نصرانی کے کان میں میرا ذکر پڑے اور وہ مجھ پر ایمان نہ لائے ، وہ جنت میں نہیں جا سکتا ۔ } ۱؎ (مسند احمد:398/4:صحیح لغیرہ) یہ حدیث اور سند سے صحیح مسلم شریف میں بھی ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:153) مسند احمد میں ہے کہ { اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میرا ذکر اس امت کے جس یہودی ، نصرانی کے پاس پہنچے اور وہ مجھ پر اور میری وحی پر ایمان نہ لائے اور مر جائے ، وہ جہنمی ہے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:350/2:صحیح) مسند کی ایک اور حدیث میں آپ نے ان پانچوں چیزوں کا ذکر فرمایا جو صرف آپ کو ہی ملی ہیں ۔ پھر فرمایا : { ہر نبی نے شفاعت کا سوال کر لیا ہے اور میں نے اپنے سوال کو چھپا رکھا ہے اور ان کے لیے اٹھا رکھا ہے جو میری امت میں سے توحید پر مرے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:416/4:صحیح) یہ حدیث سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے بخاری و مسلم میں بھی موجود ہے کہ { مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کے انبیاء کو نہیں دی گئیں ۔ مہینے بھر کی مسافت تک رعب سے امداد و نصرت ، ساری زمین کا مسجد و طہور ہونا کہ میری امت کو جہاں وقت نماز آ جائے ، ادا کر لے ۔ غنیمتوں کا حلال کیا جانا جو پہلے کسی کے لیے حلال نہ تھیں ۔ شفاعت کا دیا جانا ۔ تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا جانا حالانکہ پہلے انبیاء صرف اپنی قوم کی طرف ہی بھیجے جاتے تھے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:335) پھر فرماتا ہے کہ کہو ، مجھے اس اللہ نے بھیجا ہے جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے ، سب چیزوں کا خالق ، مالک ہے ۔ جس کے ہاتھ میں ملک ہے ، جو مارنے ، جلانے پر قادر ہے ۔ جس کا حکم چلتا ہے ۔ پس اے لوگو ! تم اللہ پر اور اس کے رسول و نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤ جو ان پڑھ ہونے کے باوجود دنیا کو پڑھا رہے ہیں ۔ انہی کا تم سے وعدہ تھا اور ان ہی کی بشارت تمہاری کتابوں میں بھی ہے ، انہی کی صفتیں اگلی کتابوں میں ہیں ۔ یہ خود اللہ کی ذات پر اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتے ہیں ۔ قول و فعل سب میں اللہ کے کلام کے مطیع ہیں ۔ تم سب ان کے ماتحت اور فرمانبردار ہو جاؤ ۔ انہی کے طریقے پر چلو ، انہی کی فرمانبرداری کرو ، تم راہ راست پر آ جاؤ گے ۔