وَلَمَّا سَكَتَ عَن مُّوسَى الْغَضَبُ أَخَذَ الْأَلْوَاحَ ۖ وَفِي نُسْخَتِهَا هُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلَّذِينَ هُمْ لِرَبِّهِمْ يَرْهَبُونَ
اور جب موسیٰ کی خشم ناکی فرو ہوئی تو اس نے تختیاں اٹھا لیں، ان کی کتابت میں (یعنی ان حکموں میں جو ان پر لکھتے ہوئے تھے) ان لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے جو اپنے پروردگار کا ڈر رکھتے ہیں۔
. موسیٰ علیہ السلام کو اپنی قوم پر جو غصہ تھا جب وہ جاتا رہا تو سخت غصے کی حالت میں جن تختیوں کو انہوں نے زمین پر ڈال دیا تھا ، اب اٹھا لیں ۔ یہ غصہ صرف اللہ کی راہ میں تھا کیونکہ آپ کی قوم نے بچھڑے کی پوجا کی تھی ۔ ان تختیوں میں ہدایت و رحمت تھی ۔ کہتے ہیں کہ جب کلیم اللہ نے تختیاں زمین پر ڈال دیں تو وہ ٹوٹ گئیں ، پھر انہیں جمع کیا ۔ تو ان میں رہبری اور رحم پایا اور تفصیل اٹھا لی گئی تھی ۔ کہتے ہیں کہ ان تختیوں کے ٹکڑے شاہی خزانوں میں بنی اسرائیل کے پاس دولت اسلامیہ کے ابتدائی زمانے تک محفوظ رہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اس کی صحت کا کوئی پتہ نہیں حالانکہ یہ بات مشہور ہے کہ وہ تختیاں جنتی جوہر کی تھیں اور اس آیت میں ہے کہ پھر موسیٰ علیہ السلام نے خود ہی انہیں اٹھا لیا اور ان میں رحمت و ہدایت پائی چونکہ رہبت متضمن ہے خشوع و خضوع کو ، اس لیے اسے لام سے متعدی کیا ۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : ” ان میں آپ نے لکھا دیکھا کہ ایک امت تمام امتوں سے بہتر ہو گی جو لوگوں کے لیے قائم کی جائے گی جو بھلی باتوں کا حکم کرے گی اور برائیوں سے روکے گی تو موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی کہ اے اللہ ! میری امت کو یہی امت بنا دے ۔ جواب ملا کہ یہ امت امت احمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم ۔ پھر پڑھا کہ ایک امت ہو گی جو دنیا میں سب سے آخر آئے گی اور جنت میں سب سے پہلے جائے گی تو بھی آپ نے یہی درخواست کی اور یہی جواب پایا ۔ پھر پڑھا کہ ایک امت ہو گی جن کی کتاب ان کے سینوں میں ہو گی جس کی وہ تلاوت کریں گے یعنی حفظ کریں گے اور دوسرے لوگ دیکھ کر پڑھتے ہیں ۔ اگر ان کی کتابیں اٹھ جائیں تو علم جاتا رہے کیونکہ انہیں حفظ نہیں ۔ اس طرح کا حافظہ اسی امت کے لئے مخصوص ہے ، کسی اور امت کو نہیں ملا ۔ اس پر بھی آپ نے یہی درخواست کی اور یہی جواب پایا ۔ پھر دیکھا کہ اس میں لکھا ہوا ہے کہ ایک امت ہو گی جو اگلی پچھلی تمام کتابوں پر ایمان لائے گی اور گمراہوں سے جہاد کرے گی یہاں تک کہ کانے دجال سے جہاد کرے گی ۔ اس پر بھی آپ نے یہی دعا کی اور یہی جواب پایا ۔ پھر دیکھا کہ ایک امت ہو گی جو اپنے صدقے آپ کھائے گی اور اجر بھی پائے گی حالانکہ اور امتیں جو صدقہ کرتی رہیں ، اگر قبول ہوا تو آگ آ کر اسے کھا گئی اور اگر نامقبول ہوا تو اسے درندوں پرندوں نے کھا لیا ۔ اللہ نے تمہارے صدقے تمہارے مالداروں سے تمہارے مفلسوں کے لیے لیے ہیں ۔ اس پر بھی کلیم اللہ نے یہی دعا کی اور یہی جواب ملا ۔ پھر پڑھا کہ ایک امت ہو گی جو اگر نیکی کا ارادہ کر لے پھر نہ کرے تو بھی نیکی لکھ لی جائے گی اور اگر کر بھی لی تو دس نیکیاں لکھی جائیں گی ، سات سو تک اسی طرح بڑھتی چلی جائیں گی اس پر بھی آپ نے یہی دعا کی اور یہی جواب پایا ۔ پھر ان تختیوں میں آپ نے پڑھا کہ ایک امت ہو گی جو خود بھی شفاعت کرے گی اور ان کی شفاعت دوسرے بھی کریں گے ۔ آپ نے پھر یہی دعا کی کہ اے اللہ! یہ مرتبہ میری امت کو دے ۔ جواب ملا : یہ امت امت احمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ اس پر آپ نے تختیاں لے لیں اور کہنے لگے : اے اللہ ! مجھے امت احمد میں کر دے ۔ “