وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَٰكِن كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
اور اگر بستیوں کے رہنے والے (جن کی سرگزشتیں بیان کی گئی ہیں) ایمان لاتے اور برائیوں سے بچتے تو ہم آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے ضرور ان پر کھول دیتے، لیکن انہوں نے جھٹلایا پس اس کمائی کی وجہ سے جو انہوں نے (اپنے اعمال کے ذریعہ) حاصل کی تھی ہم نے انہیں پکڑ لیا (اور وہ مبتلائے عذاب ہوئے)۔
عوام کی فطرت لوگوں سے عام طور پر جو غلطی ہو رہی ہے ، اس کا ذکر ہے کہ عموماً ایمان سے اور نیک کاموں سے بھاگتے رہتے ہیں ۔ صرف یونس علیہ السلام کی پوری بستی ایمان لائی تھی اور وہ بھی اس وقت جبکہ عذابوں کو دیکھ لیا اور یہ بھی صرف ان کے ساتھ ہی ہوا کہ آئے ہوئے عذاب واپس کر دیئے گئے اور دنیا و آخرت کی رسوائی سے بچ گئے ۔ ’ یہ لوگ ایک لاکھ بلکہ زائد تھے ۔ اپنی پوری عمر تک پہنچے اور دنیوی فائدے بھی حاصل کرتے رہے ۔ ‘ ۱؎ (37-الصافات:147-148) تو فرماتا ہے کہ اگر نبیوں کے آنے پر ان کے امتی صدق دل سے ان کی تابعداری کرتے ، برائیوں سے رک جاتے اور نیکیاں کرنے لگتے تو ہم ان پر کشادہ طور پر بارشیں برساتے اور زمین سے پیداوار اگاتے ۔ لیکن انہوں نے رسولوں کی نہ مانی بلکہ انہیں جھوٹا سمجھا اور روبرو جھوٹا کہا ۔ برائیوں سے ، حرام کاریوں سے ایک انچ نہ ہٹے ۔ اس وجہ سے تباہ کر دیے گئے ۔ کیا کافروں کو اس بات کا خوف نہیں کہ راتوں رات ان کی بےخبری میں ان کے سوتے ہوئے عذاب الٰہی آ جائے اور یہ سوئے کے سوئے رہ جائیں ؟ کیا انہیں ڈر نہیں لگتا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دن دہاڑے ان کے کھیل کود اور غفلت کی حالت میں اللہ جل جلالہ کا عذاب آ جائے ؟ اللہ کے عذابوں سے ، اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے ۔ اس کی بےپایاں قدرت کے اندازے سے غافل وہی ہوتے ہیں جو اپنے آپ بربادی کی طرف بڑھے چلے جاتے ہوں ۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ مومن نیکیاں کرتا ہے اور پھر ڈرتا رہتا ہے اور فاسق ، فاجر شخص برائیاں کرتا ہے اور بےخوف رہتا ہے ۔ نتیجے میں مومن امن پاتا ہے اور فاجر پیس دیا جاتا ہے ۔