وَنَادَىٰ أَصْحَابُ النَّارِ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَنْ أَفِيضُوا عَلَيْنَا مِنَ الْمَاءِ أَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ ۚ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكَافِرِينَ
اور دوزخیوں نے جنت والوں کو پکارا تھوڑا سا پانی ہم پر بہا دو (کہ گرمی کی شدت سے پھٹکے جاتے ہیں) یا اس میں سے کچھ دے دو جو خدا نے تمہیں بخشا ہے، جنت والوں نے جواب دیا خدا نے یہ دونوں چیزیں (آج) منکروں پر روک دی ہیں۔
جیسی کرنی ویسی بھرنی دوزخیوں کی ذلت و خواری اور ان کا بھیک مانگنا اور ڈانٹ دیا جانا بیان ہو رہا ہے کہ وہ جنتیوں سے پانی یا کھانا مانگیں گے ۔ اپنے نزدیک کے رشتے ، کنبے والے جیسے باپ ، بیٹے ، بھائی ، بہن وغیرہ سے کہیں گے کہ ہم جل بھن رہے ہیں ، بھوکے پیاسے ہیں ، ہمیں ایک گھونٹ پانی یا ایک لقمہ کھانا دے دو ۔ وہ بحکم الٰہی انہیں جواب دیں گے کہ یہ سب کچھ کفار پر حرام ہے ۔ { سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال ہوتا ہے کہ کس چیز کا صدقہ افضل ہے ؟ فرمایا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ سب سے افضل خیرات پانی ہے ۔ دیکھو جہنمی اہل جنت سے اسی کا سوال کریں گے ۔ } ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:2673:اسنادہ فیہ جہالۃ) مروی ہے کہ { جب ابوطالب موت کی بیماری میں مبتلا ہوا تو قریشیوں نے اس سے کہا : کسی کو بھیج کر اپنے بھتیجے سے کہلواؤ کہ وہ تمہارے پاس جنتی انگور کا ایک خوشہ بھجوا دے تاکہ تیری بیماری جاتی رہے ۔ جس وقت قاصد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا ہے ، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کے پاس موجود تھے ۔ سنتے ہی فرمانے لگے : اللہ نے جنت کی کھانے پینے کی چیزیں کافروں پر حرام کر دی ہیں ۔ } ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:166/3:مرسل) پھر ان کی بدکرداری بیان فرمائی کہ یہ لوگ دین حق کو ایک ہنسی کھیل سمجھے ہوئے تھے ۔ دنیا کی زینت اور اس کے بناؤ چناؤ میں ہی عمر بھر مشغول رہے ۔ یہ چونکہ اس دن کو بھول بسر گئے تھے ۔ اس کے بدلے ہم بھی ان کے ساتھ ایسا معاملہ کریں گے جو کسی بھول جانے والے کا معاملہ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ بھولنے سے پاک ہے ، اس کے علم سے کوئی چیز نکل نہیں سکتی ۔ فرماتا ہے : «لَا یَضِلٰ رَبِّیْ وَلَا یَنْسَی» ۱؎ (20-طہ:52) ’ نہ وہ بہکے ، نہ بھولے ۔ ‘ یہاں جو فرمایا : یہ صرف مقابلہ کیلئے ہے ۔ جیسے فرمان ہے : «نَسُوا اللہَ فَنَسِیَہُمْ» ۱؎ (9-التوبۃ:67) اور جیسے دوسری آیت میں ہے «قَالَ کَذٰلِکَ اَتَتْکَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیْتَہَا وَکَذٰلِکَ الْیَوْمَ تُنْسٰی» ۱؎ (20-طہ:126) فرمان ہے «وَقِیلَ الْیَوْمَ نَنسَاکُمْ کَمَا نَسِیتُمْ لِقَاءَ یَوْمِکُمْ ہٰذَا» ۱؎ (45-الجاثیۃ:34) ’ تیرے پاس ہماری نشانیاں آئی تھیں جنہیں تو بھلا بیٹھا تھا اسی طرح آج تجھے بھی بھلا دیا جائے گا ۔ ‘ وغیرہ ۔ پس یہ بھلائیوں سے بالقصد بھلا دیئے جائیں گے ۔ ہاں برائیاں اور عذاب برابر ہوتے رہیں گے ۔ انہوں نے اس دن کی ملاقات کو بھلایا ، ہم نے انہیں آگ میں چھوڑا ، رحمت سے دور کیا جیسے یہ عمل سے دور تھے ۔ صحیح حدیث میں ہے : { قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بندے سے فرمائے گا : کیا میں نے تجھے بیوی بچے نہیں دیئے تھے ؟ یا عزت آبرو نہیں دی تھی ؟ کیا گھوڑے اور اونٹ تیرے مطیع نہیں کئے تھے ؟ اور کیا تجھے قسم قسم کی راحتوں میں آزاد نہیں رکھا تھا ؟ بندہ جواب دے گا کہ ہاں پروردگار ! بیشک تو نے ایسا ہی کیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : پھر کیا تو میری ملاقات پر ایمان رکھتا تھا ؟ وہ جواب دے گا کہ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : پس میں بھی آج تجھے ایسا ہی بھول جاؤں گا جیسے تو مجھے بھول گیا تھا ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2968)