إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّىٰ يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ
جن لوگوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائیں اور ان کے مقابلہ میں سرکشی کی تو (یاد رکھو) ان کے لیے آسمان کے دروازے کبھی کھلنے والے نہیں۔ ان کا جنت میں داخل ہونا ایسا ہے جیسے سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزر جانا، اسی طرح ہم مجرموں کو ان کے جرموں کا بدلہ دیتے ہیں (یعنی ہم نے اسی طرح قانون جزا ٹھہرا دیا ہے۔
بدکاروں کی روحیں دھتکاری جاتی ہیں کافروں کے نہ تو نیک اعمال اللہ کی طرف چڑھیں ، نہ ان کی دعائیں قبول ہوں ، نہ ان کی روحوں کے لیے آسمان کے دروازے کھلیں ۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ { جب بدکاروں کی روحیں قبض کی جاتی ہیں اور فرشتے انہیں لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں تو فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں : یہ خبیث روح کس کی ہے ؟ یہ اس کا بد سے بد نام لے کر بتاتے ہیں کہ فلاں کی ۔ یہاں تک کہ یہ اسے آسمان کے دروازے تک پہنچاتے ہیں لیکن ان کے لیے دروازہ کھولا نہیں جاتا ۔ { پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «لَا تُفَتَّحُ لَہُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ حَتَّیٰ یَلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیَاطِ» پڑھی ۔ } یہ بہت لمبی حدیث ہے جو سنن میں موجود ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:14620:صحیح) مسند احمد میں یہ حدیث پوری یوں ہے : { سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ایک انصاری کے جنازے میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ۔ جب قبرستان پہنچے تو قبر تیار ہونے میں کچھ دیر تھی ۔ سب بیٹھ گئے ، ہم اس طرح خاموش اور باادب تھے کہ گویا ہمارے سروں پر پرند ہیں ۔ آپ کے ہاتھ میں ایک تنکا تھا جسے آپ زمین پر پھرا رہے تھے ۔ تھوڑی دیر میں آپ نے سر اٹھا کر دو بار یا تین بار ہم سے فرمایا کہ عذاب قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو ۔ پھر فرمایا : مومن جب دنیا کی آخری اور آخرت کی پہلی گھڑی میں ہوتا ہے ، اس کے پاس آسمان سے نورانی چہروں والے فرشتے آتے ہیں گویا کہ ان کا منہ آفتاب ہے ، ان کے ساتھ جنت کا کفن اور جنت کی خوشبو ہوتی ہے ۔ وہ آ کر مرنے والے مومن کے پاس بیٹھ جاتے ہیں جہاں تک اس کی نگاہ کام کرتی ہے ، فرشتے ہی فرشتے نظر آتے ہیں پھر ملک الموت آ کر اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور فرماتے ہیں : اے اطمینان والی روح ! اللہ کی مغفرت اور رضا مندی کی طرف چل ۔ یہ سنتے ہی وہ روح اس طرح بدن سے نکل جاتی ہے جیسے مشک کے منہ سے پانی کا قطرہ ٹپک جائے ۔ اسی وقت ایک پلک جھپکنے کے برابر کی دیر میں وہ جنتی فرشتے اس پاک روح کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں اور جنتی کفن اور جنتی خوشبو میں رکھ لیتے ہیں ، اس میں ایسی عمدہ اور بہترین خوشبو نکلتی ہے کہ کبھی دنیا والوں نے نہ سونگھی ہو ۔ اب یہ اسے لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں ۔ فرشتوں کی جو جماعت انہیں ملتی ہے ، وہ پوچھتی ہے کہ یہ پاک روح کس کی ہے ؟ یہ اس کا بہتر سے بہتر جو نام دنیا میں مشہور تھا ، وہ لے کر کہتے ہیں : فلاں کی ۔ یہاں تک کہ آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہیں ۔ دروازہ کھلوا کر اوپر چڑھ جاتے ہیں ۔ یہاں سے اس کے ساتھ اسے دوسرے آسمان تک پہنچانے کے لیے فرشتوں کی اور بڑی جماعت ہو جاتی ہے ، اس طرح ساتویں آسمان تک پہنچتے ہیں ۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے : اس میرے بندے کی کتاب علیین میں رکھ دو اور اسے زمین کی طرف لوٹا دو ۔ میں نے انہیں اسی سے پیدا کیا ہے اسی میں لوٹاؤں گا اور اسی سے دوبارہ نکالوں گا ۔ { پس وہ روح لوٹا دی جاتی ہے ۔ وہیں اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں ، اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے ۔ پھر پوچھتے ہیں : تیرا دین کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے : میرا دین اسلام ہے ۔ پھر پوچھتے ہیں کہ وہ شخص جو تم میں بھیجے گئے ، کون تھے ؟ وہ کہتا ہے : وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔ فرشتے اس سے دریافت کرتے ہیں کہ تجھے کیسے معلوم ہوا ؟ جواب دیتا ہے کہ میں نے اللہ کی کتاب پڑھی ، اس پر ایمان لایا اور اسے سچا مانا ۔ وہیں آسمان سے ایک منادی ندا کرتا ہے کہ میرا بندہ سچا ہے ، اس کے لئے جنت کا فرش بچھا دو ۔ اسے جنتی لباس پہنا دو اور اس کے لئے جنت کا دروازہ کھول دو ۔ پس اس کے پاس جنت کی تروتازگی ، اس کی خوشبو اور وہاں کی ہوا آتی رہتی ہے اور اس کی قبر کشادہ کر دی جاتی ہے ۔ جہاں تک اس کی نظر پہنچتی ہے ، اسے کشادگی ہی کشادگی نظر آتی ہے ۔ اس کے پاس ایک نہایت حسین و جمیل شخص لباس فاخرہ پہنے ہوئے خوشبو لگائے ہوئے آتا ہے اور اس سے کہتا ہے : خوش ہو جا ، یہی وہ دن ہے جس کا تجھے وعدہ دیا جاتا تھا ۔ یہ اس سے پوچھتا ہے : تو کون ہے ؟ تیرے چہرے سے بھلائی پائی جاتی ہے ۔ وہ جواب دیتا ہے کہ میں تیرا نیک عمل ہوں ۔ اب تو مومن آرزو کرنے لگتا ہے کہ اللہ کرے قیامت آج ہی قائم ہو جائے تاکہ میں جنت میں پہنچ کر اپنے مال اور اپنے اہل و عیال کو پا لوں اور کافر کی جب دنیا کی آخری گھڑی آتی ہے تو اس کے پاس سیاہ چہرے والے فرشتے آسمان سے آتے ہیں ، ان کے ساتھ ٹاٹ ہوتا ہے ، اس کی نگاہ تک اسے یہی نظر آتے ہیں ۔ پھر ملک الموت آ کر اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور فرماتے ہیں : اے خبیث روح ! اللہ کی ناراضگی اور اس کے غضب کی طرف چل ۔ یہ سن کر روح بدن میں چھپنے لگتی ہے جسے ملک الموت جبراً گھسیٹ کر نکالتے ہیں ۔ اسی وقت وہ فرشتے ان کے ہاتھ سے ایک آنکھ جھپکنے میں لے لیتے ہیں اور اس جہنمی ٹاٹ میں لپیٹ لیتے ہیں اور اس سے نہایت ہی سڑی ہوئی بدبو نکلتی ہے ، یہ اسے لے کر چڑھنے لگتے ہیں ۔ فرشتوں کا جو گروہ ملتا ہے ، اس سے پوچھتا ہے کہ ناپاک روح کس کی ہے ؟ یہ اس کی روح کا بدترین نام دنیا میں تھا ، انہیں بتاتے ہیں ۔ پھر آسمان کا دروازہ اس کیلئے کھلوانا چاہتے ہیں مگر کھولا نہیں جاتا ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی یہ آیت «لَا تُفَتَّحُ لَہُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ حَتَّیٰ یَلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیَاطِ» تلاوت فرمائی ۔ جناب باری عزوجل کا ارشاد ہوتا ہے : اس کی کتاب سجین میں سب سے نیچے کی زمین میں رکھو پھر اس کی روح وہاں سے پھینک دی جاتی ہے ۔ { پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : «وَمَن یُشْرِکْ بِ اللہِ فَکَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ أَوْ تَہْوِی بِہِ الرِّیحُ فِی مَکَانٍ سَحِیقٍ» ۱؎ (22-الحج:31) یعنی ’ جس نے اللہ کے ساتھ شریک کیا گویا وہ آسمان سے گر پڑا پس اسے یا تو پرند چرند اچک لے جائیں گے یا ہوائیں کسی دور دراز کی ڈراؤنی ویران جگہ پر پھینک دیں گی ۔ ‘ اب اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے ۔ اور اس کے پاس دو فرشتے پہنچتے ہیں ۔ اسے اٹھا کر بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں : تیرا رب کون ہے ؟ یہ کہتا ہے : ہائے ہائے ! مجھے خبر نہیں ۔ پوچھتے ہیں : تیرا دین کیا ہے ؟ جواب دیتا ہے : افسوس ! مجھے اس کی بھی خبر نہیں ۔ پوچھتے ہیں : بتا اس شخص کی بابت تو کیا کہتا ہے جو تم میں بھیجے گئے تھے ؟ یہ کہتا ہے : آہ ! میں اس کا جواب بھی نہیں جانتا ۔ اسی وقت آسمان سے ندا ہوتی ہے کہ میرے غلام نے غلط کہا ۔ اس کے لئے جہنم کی آگ بچھا دو اور جہنم کا دروازہ اس کی قبر کی طرف کھول دو ۔ وہاں سے گرمی اور آگ کے جھونکے آنے لگتے ہیں ، اس کی قبر تنگ ہو جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ ادھر کی پسلیاں ادھر اور ادھر کی ادھر ہو جاتی ہیں ۔ اس کے پاس ایک شخص نہایت مکروہ اور ڈراؤنی صورت والا ، برے کپڑے پہنے ، بری بدبو والا آتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ اب اپنی برائیوں کا مزہ چکھ ، اسی دن کا تجھ سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ یہ پوچھتا ہے : تو کون ہے ؟ تیرے تو چہرے سے وحشت اور برائی ٹپک رہی ہے ؟ یہ جواب دیتا ہے : میں تیرا خبیث عمل ہوں ۔ یہ کہتا ہے : یااللہ ! قیامت قائم نہ ہو ۔ } ۱؎ (مسند احمد:287/4-288:صحیح) اسی روایت کی دوسری سند میں ہے کہ { مومن کی روح کو دیکھ کر آسمان و زمین کے تمام فرشتے دعائے مغفرت و رحمت کرتے ہیں ۔ اس کے لئے آسمانوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور ہر دورازے کے فرشتوں کی تمنا ہوتی ہے کہ اللہ کرے ، یہ روح ہماری طرف سے آسمان پر چڑھے ۔ } اس میں یہ بھی ہے کہ { کافر کی قبر میں اندھا ، بہرا ، گونگا فرشتہ مقرر ہو جاتا ہے جس کے ہاتھ میں ایک گرز ہوتا ہے کہ اگر اسے کسی بڑے پہاڑ پر مارا جائے تو وہ مٹی ہو جائے ۔ پھر اسے جیسا وہ تھا ، اللہ تعالیٰ کر دیتا ہے ۔ فرشتہ دوبارہ اسے گرز مارتا ہے جس سے یہ چیخنے چلانے لگتا ہے جسے انسان اور جنات کے سوا تمام مخلوق سنتی ہے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:295/4-296:صحیح) ابن جریر میں ہے کہ { نیک صالح شخص سے فرشتے کہتے ہیں : اے مطمئن نفس ! جو طیب جسم میں تھا ، تو تعریفوں والا بن کر نکل اور جنت کی خوشبو اور نسیم جنت کی طرف چل ۔ اس اللہ کے پاس چل جو تجھ پر غصے نہیں ہے ۔ { فرماتے ہیں کہ جب اس روح کو لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں ، دروازہ کھلواتے ہیں تو پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون ہے ؟ یہ اس کا نام بتاتے ہیں تو وہ اسے مرحبا کہہ کر وہی کہتے ہیں ۔ یہاں تک کہ یہ اس آسمان میں پہنچتے ہیں جہاں اللہ ہے ۔ } اس میں یہ بھی ہے کہ { برے شخص سے وہ کہتے ہیں : اے خبیث نفس ! جو خبیث جسم میں تھا ، تو برا بن کر نکل اور تیز کھولتے ہوئے پانی اور لہو پیپ اور اسی قسم کے مختلف عذابوں کی طرف چل ۔ اس کے نکلنے تک فرشتے یہی سناتے رہتے ہیں ۔ پھر اسے لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں ۔ پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون ہے ؟ یہ اس کا نام بتاتے ہیں تو آسمان کے فرشتے کہتے ہیں ، اس خبیث کو مرحبا نہ کہو ۔ یہ تھی بھی خبیث جسم میں ، تو بد بن کر لوٹ جا ۔ اس کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھلتے اور آسمان و زمین کے درمیان چھوڑ دی جاتی ہے ۔ پھر قبر کی طرف لوٹ آتی ہے ۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4262 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام ابن جریر نے لکھا ہے کہ نہ ان کے اعمال چڑھیں ، نہ ان کی روحیں ۔ اس سے دونوں قول مل جاتے ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اس کے بعد کے جملے میں جمہور کی قرأت تو «جمل» ہے جس کے معنی نر اونٹ کے ہیں لیکن ایک قرأت میں «جمل» ہے اس کے معنی بڑے پہاڑ کے ہیں ۔ مطلب یہ ہر دو صورت ایک ہی ہے کہ نہ اونٹ سوئی کے ناکے سے گزر سکے ، نہ پہاڑ ۔ اسی طرح کافر جنت میں نہیں جا سکتا ۔ ان کا اوڑھنا بچھونا آگ ہے ۔ ظالموں کی یہی سزا ہے ۔