سورة الاعراف - آیت 33

قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغمبر) ان لوگوں سے کہو، میرے پروردگار نے جو کچھ حرام ٹھہرایا ہے وہ تو یہ ہے کہ : بے حیائی کی باتیں جو کھلے طور پر کی جائیں اور جو چھپا کر کی جائیں۔ گناہ کی باتیں، ناحق کی زیادتی، یہ کہ خدا کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ جس کی اس نے کوئی سند نہیں اتاری۔ اور یہ کہ خدا کے نام سے ایسی بات کہو جس کے لیے تمہارے پاس کوئی علم نہیں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : پہلے منکرین حق سے سوال کیا تھا کہ جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے حلال قرار دیا ہے بتاؤ ان کو کس نے حرام کیا ہے؟ اب ایک خاص انداز میں جواب دیتے ہوئے یہ بتلایا گیا ہے کہ جو چیزیں تم نے از خود اپنے آپ حرام کی ہیں اللہ تعالیٰ نے وہ چیزیں حرام نہیں کیں بلکہ یہ چیزیں حرام قرار دی ہیں۔ 1۔ بے حیائی خفیہ ہو یا اعلانیہ۔ 2۔ گناہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ 3۔ ہر قسم کی تعدّی اور سرکشی۔ 4۔ اللہ کی ذات اور اس کی صفات میں کسی کو شریک کرنا۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کے ذمے وہ بات لگانا جس کا قرآن وسنت میں ثبوت نہ ہو۔ فواحش، فاحشۃ کی جمع ہے جسے کلی طور پر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر حرام اور ناجائز قرار دیا ہے۔ بے حیائی سرعام کی جائے یا چھپ کر کی جائے وہ ہر صورت اور ہر حالت میں ناجائز اور حرام ہے۔ اکثر مفسرین نے فواحش سے مرادبے حیائی اثم سے مراد شراب خوری لی ہے کیونکہ سورۃ بنی اسرائیل آیت ٣٢ میں زنا کو بے حیائی قرار دیا ہے۔ اثم کا معنیٰ بعض مفسرین نے شراب لیا ہے اس لیے کہ سورۃ البقرۃ، آیت ٢١٩ میں شراب اور جوا کو اثم کہا ہے تاہم اس تفسیر کے باوجود فواحش سے مراد یہاں ہر قسم کی بدکاری اور بے حیائی ہے چاہے عملاً ہو یا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے پھیلائی جا رہی ہو جس سے مسلمانوں کے اخلاق تباہ اور ان کی دینی اور ایمانی قدریں کمزور ہوتی ہوں اس قسم کی تمام حرکات بے حیائی تصور کی جائیں گی۔ اثم کی تشریح کرتے ہوئے سید ابوالاعلیٰ مودودی (رض) لکھتے ہیں کہ اثم اس اونٹنی کو کہا جاتا ہے جو تیز رفتار چل سکتی ہو مگر اس کے باوجود وہ جان بوجھ کر سست روی کا مظاہرہ کرے یعنی انسان نیکی کرنے کی استعداد اور طاقت رکھتا ہو مگر پھر بھی نیکی کرنے میں سستی اور غفلت کا مظاہرہ کرے اس لحاظ سے اثم یعنی گناہ کا دائرہ بڑا وسیع ہوجاتا ہے شاید اسی بنیاد پر نبی اکرم (ﷺ) اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ دعا کیا کرتے تھے۔ (اَللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْکَسَلِ) [ رواہ البخاری : باب التَّعَوُّذِ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ] ” الٰہی میں تجھ سے سستی اور غفلت سے پناہ مانگتاہوں۔“ البغی کا معنیٰ تعدی اور سرکشی اختیار کرنا جس سے مراد اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ اخلاقی اور ایمانی حدود سے تجاوز کرنا ہے اس لیے یہاں﴿ اَلْبَغْیُ بِغَیْرِ الْحَقِّ ﴾کے الفاظ فرمائے ہیں۔ جس کا مفہوم یہ نہیں کہ کسی شخص کو اللہ اور اس کے رسول کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرنے کا حق ہے بلکہ ﴿بِغَیْرِ الْحَقِّ﴾ کے الفاظ سے یہ تاکید کی جا رہی ہے کہ کسی انسان کو بھی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی اور سرکشی کرے بعض اہل علم نے البغی سے مراد ایسا گناہ لیا ہے جس میں گناہ کرنے والا دوسرے پر زیادتی کا بھی ارتکاب کرے جیسے قتل، چوری، زنا بالجبر وغیرہ۔ شرک : سورۂ لقمان آیت 13میں شرک کو ظلم عظیم قرار دیا گیا ہے شرک اس لیے ظلم عظیم ہے کہ مشرک جن صفات کو اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کے ساتھ منسوب کرتا اور سمجھتا ہے وہ صفات اللہ تعالیٰ کے سوا کسی بھی شخص زندہ ہو یا فوت ہوچکا ہو۔ اس میں نہیں پائی جاتیں۔ اور نہ ہی شرک کی تائید میں کوئی معقول دلیل پیش کی جاسکتی ہے بشرطیکہ کسی کی عقل ماؤف نہ ہوچکی ہو۔ ہرزمانے کے مشرک شرک کی حمایت میں جودلیلیں دیتے ہیں وہ عقل اور علم کے معیار پر پوری نہیں اترتیں اس لیے حکم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ کیونکہ اس نے شرک کی تائید میں کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ اللہ اور اس کے رسول پر کذب بیانی کرنا : یعنی اپنے جی سے حلال و حرام ٹھہرانا، اپنی خواہشوں کی پیروی اور ثواب کی خاطر دین میں بدعتیں ایجاد کرنا، من مرضی سے شریعت تصنیف کرکے اس کو اللہ کی طرف منسوب کرنا۔ اس اعتبار سے جو شخص رسول معظم (ﷺ) کی طرف جھوٹی اور من گھڑت حدیث منسوب کرتا ہے وہ بالواسطہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ جھوٹ لگاتا ہے۔ (عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ أَبِیہٖ قَالَ قُلْتُ للزُّبَیْرِ (رض) إِنِّی لَا أَسْمَعُکَ تُحَدِّثُ عَنْ رَّسُول اللّٰہِ () کَمَا یُحَدِّثُ فُلَانٌ وَفُلَانٌ قَالَ أَمَا إِنِّی لَمْ أُفَارِقْہُ وَلَکِنْ سَمِعْتُہٗ یَقُولُ مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ) [ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب اثم من کذب علی النبی (ﷺ) ] ” حضرت عامر بن عبداللہ بن زبیر اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے والد زبیر (رض) سے کہا میں نے آپ کو نہیں سنا کہ آپ رسول معظم (ﷺ) سے حدیث بیان کریں جس طرح فلاں فلاں آدمی بیان کرتا ہے۔ حضرت زبیر (رض) نے کہا میں نے ہمیشہ آپ (ﷺ) سے یہ بات سنی کہ آپ نے فرمایا جو کوئی میری جانب جھوٹ کی نسبت کرے اسے چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکاناجہنم سمجھے۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُول اللّٰہِ () یَتَعَوَّذُ یَقُولُ ” اللّٰہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الْہَرَمِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الْبُخْلِ“ ) [ رواہ البخاری : کتاب الدعوات، باب التعوذ من أرذل العمر] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہوئے یہ دعا کیا کرتے تھے اے اللہ میں سستی، بزدلی، ناکارہ پن بڑھاپے اور بخل سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ مسائل : 1۔ چھوٹے بڑے، ظاہر اور باطن گناہوں کو چھوڑ دینا چاہیے۔ 2۔ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی وسرکشی کرے۔ 3۔ شرک کی تائید میں اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ 4۔ شرک کی کوئی دلیل نہیں اس لیے من گھڑت باتیں کرنے سے شرک ثابت نہیں ہوسکتا۔ 5۔ من گھڑت مسائل بیان کرنا اللہ تعالیٰ پرجھوٹ باندھنے کے مترادف ہے۔ تفسیر بالقرآن : شرک کا عقیدہ بے بنیاد ہے : 1۔ اللہ کے سوا مشرک جس کی عبادت کرتے ہیں اس کی کوئی دلیل نہیں۔ (الحج :71) 2۔ مشرک اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہوئے نہیں ڈرتے حالانکہ اس کی کوئی دلیل نہیں۔ (الانعام :81)