يَا بَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْآتِهِمَا ۗ إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ ۗ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ
(اور خدا نے فرمایا) اے اولاد آدم ! دیکھو کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں اسی طرح بہکا دے جس طرح تمہارے ماں باپ کو بہکا کر جنت سے نکلوا دیا تھا اور ان کے لباس اتروا دیے تھے کہ ان کے ستر انہیں دکھا دیئے، وہ اور اس کا گروہ تمہیں اس طرح دیکھتا ہے کہ تم اسے نہیں دیکھتے۔ یاد رکھو ہم نے یہ بات ٹھہرا دی ہے کہ جو لوگ ایمان نہیں رکھتے ان کے رفیق و مددگار شیاطین ہوتے ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 27 سے 28) ربط کلام : لباس کا حکم دینے کے بعد بنی آدم کو شیطان سے بچنے کا حکم تاکہ جسمانی حفاظت کے ساتھ اس کا کردار بھی سلامت رہے۔ بنی نوع انسان کو لباس پہننے کا حکم دے کر لباس کو پرہیزگاری اور ہر قسم کی خیر قرار دیا ہے۔ آدمی شریعت کے مطابق لباس کا اہتمام کرکے ظاہری وباطنی گناہوں سے تبھی بچ سکتا ہے جب شیطان کو اپنا دشمن جان کر اس کی شرارت، سازش اور فتنہ انگیز یوں سے بچنے کی کوشش کرے۔ اس احساس کو بیدار کرنے اور انسان کی غیرت کو ابھارنے کے لیے یہ کہہ کر غیرت دلائی گئی ہے کہ تمہیں شیطان سے بچنے کا اس لیے بھی حکم دیا جاتا ہے کہ یہ تمہارا ایسا دشمن ہے کہ جس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے برہنہ کرکے نکلوایا تھا یہ تمہارا ایسا دشمن ہے کہ وہ اور اس کے چیلے چانٹے تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم ان کو نہیں دیکھ سکتے۔ شیطان اور اس کی اولاد جناّت میں سے ہیں اور جناّت کو اللہ تعالیٰ نے ایسی آگ سے بنایا ہے جو ہمیں نظر نہیں آتی اور پھر شیطان کو یہ قوت بھی دی کہ وہ کئی روپ بدل کر انسان کو گمراہ کرتا ہے۔ اس لیے فرمایا وہ اور اس کی اولاد تمہیں دیکھتی ہے جبکہ تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ اس سے ثابت ہوا کہ شیطان اور اس کی دشمنی انسان کے لیے انتہائی خطرناک ہے آدمی اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کے ساتھ آمنے سامنے کچھ نہ کچھ مقابلہ کرسکتا ہے لیکن ایسا دشمن جو ان دیکھے وار کرے اس کا مقابلہ کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے اس آیت میں صرف شیطان کو آدمی کا دشمن قرار نہیں دیا گیا بلکہ شیطان کا ایک ایک روحانی اور جسمانی فرزند آدمیت کا دشمن ہے۔ یاد رہے قرآن مجید کی آخری سورۃ الناس میں جنات کے ساتھ بعض انسانوں کو بھی شیطان قرار دیا ہے۔ شیطان توانسان کے دل میں صرف برائی کی طاقت اور خیال پیدا کرتا ہے جبکہ انسان کے روپ میں جو شیطان ہوتے ہیں وہ عورت کی شکل میں عورتوں کو اور مرد کی صورت میں مردوں کو الگ الگ اور مردوزن کے اختلاط سے بے حیائی اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی دعوت دیتے ہیں۔ جس کا مظاہرہ تفریح کے نام پر ٹی وی، کیبل ڈراموں، آرٹ کونسلوں اور مختلف قسم کی سماجی تقریبات میں سامنے آتا ہے۔ سب سے پہلے شیطان انسان کے اندر جسمانی اور اخلاقی بے حیائی پیدا کرتا ہے۔ جب کسی انسان اور معاشرہ میں بے حیائی پیدا ہوجائے تو اس سے ہر گناہ اور جرم کی توقع کی جاسکتی ہے ایسے لوگوں کو سمجھایا جائے تو وہ اسے اپنے بڑوں کی روایت اور معاشرے کا کلچر قرار دیتے ہیں۔ جب انہیں مزید توجہ دلائی جائے تو وہ یہاں تک کہہ گزرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو یہ کام ناپسند ہوتا تو لوگ اس طرح اپنی خوشیوں کا اظہار نہ کرتے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف کوئی پتہ حرکت نہیں کرسکتا۔ لہٰذا ہم جو کچھ کر رہے ہیں اس کی مرضی اور منشاء کے مطابق کرتے ہیں۔ اے رسول (ﷺ) ! انہیں بتلائیں اور سمجھائیں کہ اللہ تعالیٰ بے حیائی کو ہرگز پسند نہیں کرتا اور نہ بے حیائی کو اپنانے اور پھیلانے کا حکم دیتا ہے۔ شیطان کے دوستوں کا اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں ہوتا۔ جس کی بناء پر وہ ایسی باتیں کہتے اور حرکات کرتے ہیں۔ اللہ اپنے بندوں کو ہر قسم کی بے حیائی سے روکتا ہے اللہ تعالیٰ کے نام بے حیائی کی نسبت کرنا پرلے درجے کی جہالت ہے جو ایمان سے تہی دامن شخص ہی کرسکتا ہے بے حیا لوگ اللہ تعالیٰ کے بارے میں وہ بات کرتے ہیں جس کا علم ودانش اور شرم و حیا کے ساتھ دور کا واسطہ نہیں ہوتا۔ (عَنْ عُقْبَۃَ قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) إِنَّ مِمَّا أَدْرَکَ النَّاسُ مِنْ کَلَام النُّبُوَّۃِ إِذَا لَمْ تَسْتَحْیِ فَافْعَلْ مَا شِئْتَ) [ رواہ البخاری : کتاب احادیث الأنبیاء، باب حدیث الغار] ” حضرت عقبہ (رض) فرماتے ہیں نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا بلاشبہ لوگوں نے نبوت کے کلام سے جو چیز حاصل کی اس میں یہ ہے کہ جب تجھ میں شرم و حیاء نہ رہے تو پھر جو مرضی کرتا رہ۔“ (عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ کَانَتْ الْمَرْأَۃُ تَطُوف بالْبَیْتِ وَہِیَ عُرْیَانَۃٌ فَتَقُولُ مَنْ یُعِیرُنِی تِطْوَافًا تَجْعَلُہُ عَلٰی فَرْجِہَا وَتَقُولُ الْیَوْمَ یَبْدُو بَعْضُہُ أَوْ کُلُّہُ فَمَا بَدَا مِنْہُ فَلَا أُحِلُّہُ فَنَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ ﴿خُذُوا زینَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ ﴾)[ رواہ مسلم : کتاب التفسیر، باب قول اللہ تعالیٰ خُذُوا زینَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایام جاہلیت میں عورت برہنہ ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کرتی اور کہتی کوئی ہے جو مجھے عاریتاً کپڑا دے اور میں اس سے شرم گاہ ڈھانپ لوں۔ پھر کہتی آج یا تو کچھ شرم گاہ کھلی رہے گی یا پوری کھلی رہے گی بہرحال جتنی بھی کھلی رہے گی اسے کسی پر حلال نہیں کروں گی۔ آیت ﴿خُذُوا زینَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ﴾ اسی بارے میں نازل ہوئی“ مسائل : 1۔ انسان شیطان کو اس لیے بھی اپنادشمن سمجھے کیونکہ وہ ہمارے ماں باپ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حوا کے ساتھ دشمنی کی تھی۔ 2۔ شیطان اور اس کی اولاد ہم کو دیکھتے ہیں جبکہ ہم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ 3۔ شیطان کی کوشش ہے کہ لوگوں کو برہنہ کر دے۔ 4۔ ایمان سے تہی دامن لوگ شیطان کے دوست ہوتے ہیں۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کے ذمہ برائی کی نسبت کرنا پرلے درجے کا گناہ اور گمراہی ہے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ ہر انسان کو ہر قسم کی بے حیائی سے منع کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اولیاء الشیطان کی نشانیاں : 1۔ اولیاء الشیطان اللہ کی آیات پر ایمان نہیں لاتے۔ (الاعراف :28) 2۔ اولیاء الشیطان گمراہی وضلالت کو نہیں چھوڑتے۔ (البقرۃ:257) 3۔ اولیاء الشیطان اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور دکھلاوے کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ (النساء :38)