هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا أَن تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ رَبُّكَ أَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ ۗ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِن قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا ۗ قُلِ انتَظِرُوا إِنَّا مُنتَظِرُونَ
یہ (ایمان لانے کے لیے) اس کے سوا کس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں، یا تمہارا پروردگار خود آئے، یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آجائیں؟ (حالانکہ) جس دن تمہارے پروردگار کی کوئی نشانی آگئی، اس دن کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے لیے کار آمد نہیں ہوگا جو پہلے ایمان نہ لایا ہو، یا جس نے اپنے ایمان کے ساتھ کسی نیک عمل کی کمائی نہ کی ہو۔ (٨٤) (لہذا ان لوگوں سے) کہہ دو کہ : اچھا، انتظار کرو، ہم بھی انتظار کر رہے ہیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب یا ان سے انحراف کرتے ہیں ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ اب ان کے پاس اللہ تعالیٰ کے ملائکہ آئیں جو ان کو اپنے زور سے کتاب اللہ کو ماننے پر مجبور کریں یا پھر اللہ کی طرف سے ایسی نشانی یا عذاب نازل ہو کہ یہ مجبور ہو کر پکار اٹھیں کہ واقعی یہ رسول سچا اور اس پر نازل ہونے والی کتاب برحق ہے۔ یاد رہے اہل مکہ برملا یہ اظہار کیا کرتے تھے۔ اس نبی کی تائید کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے فرشتے نازل کیوں نہیں کرتا یا اب تک ایسا عذاب نازل کیوں نہیں ہوا کہ جس کو دیکھ کر ہم قرآن مجید کی تائید اور نبی کی تصدیق کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ اس صورتحال پر تبصرہ کیا جا رہا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملائکہ یا کوئی فیصلہ کن نشانی آئے گی تو جو پہلے ایمان نہیں لایا۔ اس کے ایمان لانے کا اس وقت اسے کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ اور وہ شخص بھی نہیں بچ پائے گا جس نے ایمان لانے کے باوجود نیک کام نہیں کیے۔ اس کی مثالیں پہلی اقوام کے حوالے سے بے شمار ہیں کہ جب ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فیصلہ کن عذاب آیا تو وہ چیخ چیخ کر اپنے ایمان کی دہائی دے رہے تھے لیکن ان کا ایمان ان کے لیے فائدہ مند ثابت نہ ہوا۔ لہٰذا اے نبی انھیں فرمائیں اگر تم اس گھڑی کے انتظار میں ہو تو مزید انتظار کرو میں بھی تمھارے انجام کا انتظار کرتا ہوں۔ ( عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ أَسِیدٍ الْغِفَارِیِّ (رض) قَالَ کُنَّا قُعُودًا نَتَحَدَّثُ فِی ظِلِّ غُرْفَۃٍ لِرَسُول اللّٰہِ (ﷺ) فَذَکَرْنَا السَّاعَۃَ فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُنَا فَقَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) لَنْ تَکُونَ أَوْ لَنْ تَقُوم السَّاعَۃُ حَتّٰی یَکُونَ قَبْلَہَا عَشْرُ آیَاتٍ طُلُوع الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِہَا وَخُرُوج الدَّابَّۃِ وَخُرُوجُ یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَالدَّجَّالُ وَعِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَالدُّخَانُ وَثَلَاثَۃُ خُسُوفٍ خَسْفٌ بالْمَغْرِبِ وَخَسْفٌ بالْمَشْرِقِ وَخَسْفٌ بِجَزِیرَۃِ الْعَرَبِ وَآخِرُ ذٰلِکَ تَخْرُجُ نَارٌ مِنَ الْیَمَنِ مِنْ قَعْرِ عَدَنٍ تَسُوق النَّاسَ إِلَی الْمَحْشَرِ) [ رواہ ابوداؤد، کتاب الملاحم، باب أمارات الساعۃ] ” حضرت حذیفہ بن اسید غفاری (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی معظم (ﷺ) کے حجرہ مبارک کے سائے میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے دوران گفتگو ہم نے قیامت کا ذکر کیا اس کے ساتھ ہی ہماری آوازیں بھی بلند ہوگئیں۔ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک اس سے پہلے دس نشانیاں پوری نہ ہوجائیں۔ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دابہ جانور کا نکلنا، یاجوج و ماجوج کا ظاہر ہونا، دجال کا ظاہر ہونا، عیسیٰ ابن مریم ( علیہ السلام) کا نزول، دھواں کا ظاہرہونا اور زمین کا تین مرتبہ دھنسنا ایک مرتبہ مغرب میں، ایک مرتبہ مشرق میں اور ایک مرتبہ جزیرۃ العرب میں اور آخری آگ یمن کے علاقہ سے عدن کی طرف رونما ہوگی جو کہ لوگوں کو محشر کے میدان میں اکٹھا کرے گی۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) مَنْ تَابَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا تَاب اللّٰہُ عَلَیْہِ) [ رواہ مسلم : کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ، باب استحباب الاستغفار] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا جو بندہ بھی سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے قبل توبہ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائیں گے۔“ (عَن ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ إِنَّ اللّٰہَ یَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِرْ)[ رواہ الترمذی : کتاب الدعوات، باب فی فضل التوبۃ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (ﷺ) نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ اس کی جان ہنسلی میں اٹکنے سے قبل تک قبول کرتا ہے۔“ مسائل :1۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے شمار نشانیاں نازل ہوئی ہیں اور ہوتی رہتی ہیں مگر ظالم لوگ پھر بھی ان کے نزول کا مطالبہ کرتے ہیں۔