سورة البقرة - آیت 86

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ ۖ فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یقینا یہی لوگ ہیں جنہوں نے آخرت (کی زندگی) تاراج کرکے دنیا کی زندی مول لی ہے۔ (پس ایسے لوگوں کے لیے علاج کی کوئی امید نہیں) نہ تو ان کے عذاب میں کمی ہوگی، نہ کہیں سے مدد پا سکیں گے

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن ربط کلام : یہود و نصاریٰ کی یہ عہد شکنیاں اس لیے تھیں کہ انہوں نے آخرت کو فراموش کر کے دنیا کو مقدم کرلیا تھا۔ دنیا کے لیے وہ تمام اخلاقی اور دینی حدیں پھاندنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ کفار اور مشرکین کے بارے میں قرآن مجید بار بار اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ ان لوگوں پر نہ عذاب ہلکا ہوگا اور نہ ہی انہیں جہنم سے نجات ملے گی۔ جس شخص کے بارے میں عذاب ہلکا ہونے کا امکان ہے وہ جناب ابو طالب ہیں۔ ان کے بارے میں نبی کریم {ﷺ}نے اس امید کا اظہار کیا ہے۔ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ {رض}أَنَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ {}وَذُکِرَ عِنْدَہُ عَمُّہُ فَقَالَ لَعَلَّہُ تَنْفَعُہُ شَفَاعَتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، فَیُجْعَلُ فِی ضَحْضَاحٍ مِنَ النَّارِ، یَبْلُغُ کَعْبَیْہِ، یَغْلِی مِنْہُ دِمَاغُہُ) (رواہ البخاری : کتاب المناقب، باب قصۃ ابی طالب) ” حضرت ابو سعید خدری {رض}بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ {ﷺ}سے سنا۔ آپ {ﷺ}کے پاس آپ کے چچا ابو طالب کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا شاید اسے میری شفاعت قیامت کے دن فائدہ دے۔ اسے آگ پر کھڑا کیا جائے گا۔ وہ آگ اس کے ٹخنوں تک پہنچتی ہوگی جس سے اس کا دماغ کھولے گا۔“ ” جن لوگوں نے ہماری آیات کا انکار کیا یقیناً ہم انہیں جہنم واصل کریں گے جب ان کے جسموں کی کھال گل جائے گی تو ہم دوسری کھال سے بدل دیں گے تاکہ عذاب کا مزا چکھتے رہیں اللہ تعالیٰ یقینًا زبردست اور حکمت والا ہے۔“ (النساء :56) مسائل: 1۔ آخرت کی زندگی پر دنیا کو ترجیح دینے والوں پر جہنم کا عذاب ہلکا نہیں ہوگا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کے بدلے مال اور منصب حاصل کرناحرام ہے۔ 3۔ دوزخیوں کی کوئی کچھ بھی مدد نہیں کرسکے گا۔