وَكَذَٰلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيرٍ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ قَتْلَ أَوْلَادِهِمْ شُرَكَاؤُهُمْ لِيُرْدُوهُمْ وَلِيَلْبِسُوا عَلَيْهِمْ دِينَهُمْ ۖ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ
اور اسی طرح بہت سے مشرکین کو ان کے شریکوں نے سجھا رکھا ہے کہ اپنی اولاد کو قتل کرنا بڑا چھا کام ہے، تاکہ وہ ان (مشرکین) کو بالکل تباہ کر ڈالیں، اور ان کے لیے ان کے دین کے معاملے میں مغالطے پیدا کردیں۔ اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرسکتے۔ (٦٧) لہذا ان کو اپنی افترا پردازیوں میں پڑا رہنے دو۔
فہم القرآن : ربط کلام : مشرک جس طرح مال میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ غیر اللہ کو شریک بناتے ہیں اس طرح اولاد میں بھی غیر اللہ کو شریک ٹھہراتے ہیں اور ان کو غیر اللہ کے نام پر قربان کرتے تھے۔ مشرکوں کا شروع سے عقیدہ ہے کہ جب تک فلان بزرگ کی روح کو خوش نہیں کیا جائے گا اس وقت تک ہمارے مال اور اولاد میں برکت پیدا نہیں ہو سکتی اسی وجہ سے بے اولاد مشرک غیر اللہ کے نام پر چڑھاوے اور بزرگوں کے مزارات پر نذرانے پیش کرتے ہیں تاکہ ان کی گود ہری ہوجائے۔ اولاد کی خواہش میں اس قدر آگے بڑھ کر منتیں مانتے ہیں اگر بزرگوں نے اولاد عنایت کر وا دی تو ایک بچے کو فلاں بت پر قربان کریں گے۔ اسی عقیدہ کی بنا پراپنے بچوں کو بت خانوں پر ذبح کیا کرتے تھے۔ ہندوستان میں آج بھی بعض دیوتاؤں کے نام پر بچوں کو قربان کرنے کی خبریں اخبار میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ تہذیب و تمدن کے دور میں قبروں اور بتوں پر اس کثرت کے ساتھ بیٹوں کو ذبح کرنے کا رواج تو نہیں رہا لیکن یہ رواج تو مشرکوں میں عام ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بت خانوں اور مزارات کے لیے وقف کرتے ہیں جو آگے چل کر مجاور کا روپ دھار کر دولت اکٹھی کرنے کے ساتھ ساتھ بدکاری کو رواج دیتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی ہوس پوری کرنے کے لیے جہلا کو مزارات اور بت خانوں پر بیٹیاں وقف کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شاید کوئی بت خانہ اور مزار ہو۔ جہاں دن رات عورتیں قیام نہ کرتی ہوں۔ اسی وجہ سے مزارات اور آستانوں کے آئے دن اخلاق باختہ واقعات سننے میں آتے ہیں۔ بچوں کو غیر اللہ کے نام پر ذبح یا وقف کرنا اس لیے ہے کہ عیسائیوں کے پادریوں، ہندوؤں کے پنڈتوں اور مسلمانوں کے غلط عقیدہ پیروں کی وجہ سے اصلی اور حقیقی دین کی جگہ من گھڑت دین کا غلبہ ہوگیا ہے جو عزت، مال اور اولاد کی بربادی کے ساتھ آخرت کی تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ ایسے لوگوں کو جب شرک و رسومات سے منع کیا جائے تو وہ سمجھنے کے بجائے سمجھانے والوں کو بزرگوں کا گستاخ اور بےدین ہونے کا طعنہ دیتے ہیں اس لیے فرمایا انھیں ان کے من گھڑت دین پر چھوڑ دیجیے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو انھیں شرک و خرافات سے بچا لیتا کیونکہ یہ ہدایت کی چاہت نہیں رکھتے اس لیے اللہ تعالیٰ بھی ان کی چاہت کے مطابق انھیں گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے۔ (عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) إِنِّی فَرَطُکُمْ عَلٰی الْحَوْضِ مَنْ مَرَّ عَلَیَّ شَرِبَ وَمَنْ شَرِبَ لَمْ یَظْمَأْ أَبَدًا لَیَرِدَنَّ عَلَیَّ أَقْوَامٌ أَعْرِفُہُمْ وَیَعْرِفُونِی ثُمَّ یُحَالُ بَیْنِی وَبَیْنَہُمْ قَالَ أَبُو حَازِمٍ فَسَمِعَنِی النُّعْمَانُ بْنُ أَبِی عَیَّاشٍ فَقَالَ ہٰکَذَا سَمِعْتَ مِنْ سَہْلٍ فَقُلْتُ نَعَمْ فَقَالَ أَشْہَدُ عَلٰی أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ (رض) لَسَمِعْتُہُ وَہُوَ یَزِید فیہَا فَأَقُولُ إِنَّہُمْ مِنِّی فَیُقَالُ إِنَّکَ لَا تَدْرِی مَا أَحْدَثُوا بَعْدَکَ فَأَقُولُ سُحْقًا سُحْقًا لِمَنْ غَیِّرَ بَعْدِی) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق باب الحوض] ” حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا میں تمھارا حوض کوثر پر انتظار کروں گا جو بھی میرے پاس آئے گا وہ اس سے پیے گا اور جو شخص بھی اس سے ایک مرتبہ پیے گا وہ کبھی پیاس محسوس نہیں کرے گا۔ میرے پاس کچھ لوگ آئیں گے وہ مجھے پہچان لیں گے اور میں انھیں اپنے امتی کے طور پر سمجھوں گا پھر میرے اور ان کے درمیان پردہ حائل ہوجائے گا ابو حازم نے کہا نعمان بن ابی عیاش نے مجھ سے سنا اور کہا کیا تم نے اسی طرح سہل سے سنا ہے میں نے کہا ہاں، پس اس نے کہا میں ابو سعید خدری (رض) سے سنا وہ اس میں مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا یہ تو میرے امتی ہیں کہا جائے گا آپ نہیں جانتے آپ کے بعد انھوں نے کیا کیا بدعتیں شروع کیں میں ان سے کہوں گا دور ہوجاؤ دور ہوجاؤ جس نے میرے بعد دین کو بدل ڈالا۔“ مسائل :دنیا میں قتل اولاد کی ہر دور میں چار صورتیں رہی ہیں : 1۔ غیر اللہ کے نام پر بچوں کو قربان کرنا۔ 2۔ رزق کی تنگی کی وجہ سے سے اولاد کو قتل کرنا۔ 3۔ کسی کے داماد بننے کی عار سے بچیوں کو قتل کرنا۔ 4۔ جنگ و جدال میں بچیوں کی گرفتاری کے پیش نظر انھیں قتل کرنا۔ تفسیر بالقرآن :اولاد کا قتل کرنا جرم ہے : 1۔ مفلسی کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ (الاسراء :31) 2۔ غربت کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ (الانعام :151)