ذَٰلِكَ أَن لَّمْ يَكُن رَّبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَىٰ بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا غَافِلُونَ
یہ (پیغمبر بھیجنے کا) سارا سلسلہ اس لیے تھا کہ تمہارے پروردگار کو یہ گوارا نہیں تھا کہ وہ بستیوں کو کسی زیادتی کی وجہسے (٦٢) اس حالت میں ہلاک کردے کہ اس کے لوگ بے خبر ہوں۔
فہم القرآن : (آیت 131 سے 134) ربط کلام : اللہ تعالیٰ انبیاء کرام (علیہ السلام) کو لوگوں کی طرف اس لیے بھیجتا رہا تاکہ لوگوں پر حجت تمام ہوجائے۔ اس سے پہلے فرمان میں ﴿رُسُلٌ مِنْکُمْ﴾ کے الفاظ استعمال فرمائے۔ ذٰلک کا اشارہ انھی الفاظ کی ترجمانی کر رہا ہے کہ لوگوں میں انہی سے رسول بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام پڑھ کر سنائیں اور ان پر من و عن عمل کرکے دکھلائیں تاکہ کسی کے لیے یہ بہانہ نہ رہے کہ ہمارے پاس کوئی بتلانے اور سمجھانے والا نہیں آیا تھا۔ جس کی وجہ سے ہم غفلت میں پڑے رہے اور آج ہمیں بد ترین انجام سے دو چار ہونا پڑ رہا ہے۔ اس بات کے ازالہ کے لیے فرمایا اے پیغمبر! تیرے رب کا یہ وطیرہ نہیں کہ وہ کسی بستی اور اہل علاقہ کو ان کے اچھے برے انجام سے آگاہ کیے بغیر اسے فنا کے گھاٹ اتار دے بلکہ پہلے وہ رسول بھیج کر لوگوں کی اصلاح اور فلاح کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن لوگ انبیاء کی مخلصانہ اور بے مثال محنت کے باوجود غفلت اور مجرمانہ زندگی کو ترجیح دیتے رہے اور جرائم میں اتنے آگے بڑھے کہ اللہ کی مخلوق ان سے پناہ مانگنے لگی اور زمین کا نظام درہم برہم ہونے لگا تو اللہ تعالیٰ نے ظالموں کو نیست و نابود کردیا۔ اس گرفت میں بھی انھیں اتنی ہی سزا دی گئی جتنے ان کے اعمال برے تھے۔ ان پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کیا گیا۔ جس طرح دنیا میں ان کے کردار کے مطابق گرفت کی گئی بالکل اسی طرح قیامت کے دن نیک لوگوں کو ان کے اعمال کی جزا ملے گی اور برے لوگوں کو ان کے جرائم کے مطابق سزا ہوگی۔ لوگوں کے اعمال جاننے، پرکھنے اور ان کو جزا اور سزا دینے میں اللہ تعالیٰ کسی چیز سے غافل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو بار بار نصیحت اور انتباہ اس لیے نہیں کرتا ہے کہ لوگوں کے نیک اعمال سے اللہ تعالیٰ کو فائدہ اور برے کردار سے اسے نقصان پہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو کسی کی نیکی اور برائی کا کوئی فائدہ اور نقصان نہیں ہوتا۔ وہ ذات کبریا مفادات، خدشات اور نقصانات سے بے نیاز ہے۔ اس کی ذات بے نیاز ہونے کے باوجود سراپا رحمت ہے۔ وہ نیکوں کو ان کی نیکی سے بڑھ کر عنایات ورحمت سے نوازتا ہے۔ دنیا میں ظالموں کی گرفت میں اس کی یہ رحمت ہوتی ہے کہ اس کی مخلوق ان کے ظلم سے نجات پائے۔ اگر وہ چاہے تو ساری انسانیت کی صف لپیٹ کر ایک طرف رکھ دے اور ان کی جگہ اتنے ہی اور لوگوں کو لے آئے۔ جس طرح کہ پہلی اقوام میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ اس سچائی کو جاننے کے لیے دنیا کے ہر علاقے کی تاریخ اس حقیقت کی ترجمان ہے۔ عرب کی سرزمین کے بارے میں قرآن مجید تفصیل کے ساتھ ایک کے بعد دوسری قوم کے آنے کے واقعات بیان کرتا ہے۔ کبھی اس سرزمین پر قوم نوح کے کفر و شرک کا غلبہ تھا جنھیں اللہ تعالیٰ نے پانی کے سیلاب میں ڈبکیاں دے دے کر مارا۔ زمین کو شرک کی غلاظت سے پاک کردیا۔ ان کے بعد قوم عاد نے سرکشی اور تمرد کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے ان پر سات دن مسلسل زور دار آندھیاں چلیں جس سے ان کو زمین پر پٹخ پٹخ کر مارا اور صفحۂ ہستی سے ان کا وجود ختم کردیا۔ قوم ثمود کو زور دار آسمانی دھماکے نے آلیا۔ جس سے ان کے کلیجے پھٹ گئے اور اللہ کی مخلوق نے ان سے سکھ پایا۔ ان کے بعد قوم لوط نے بے حیائی کا وطیرہ اپنایا۔ جس کی پاداش میں انھیں زمین سے اٹھا کر آسمان کے قریب لے جا کر الٹ دیا اور ان پر پتھروں کی بارش برسائی پھر اس دھرتی پر کبھی ایرانی دندنائے اور کبھی رومیوں کا غلبہ ہوا۔ ان کے بعد یہودی اور عیسائی ایک دوسرے کو موت کے گھاٹ اتارتے رہے۔ عربوں کے بعد ترکوں کا دور آیا۔ ترکوں کے بعد تاتاری بادو باراں کی طرح زمین پر پھیل گئے گویا کہ ایک کے بعد دوسری قوم اور دوسری کے بعد تیسری قوم نے اس کی جگہ لی یہاں نہ داراو سکندر کا اقتدار باقی رہا ار نہ ہی نمرود، فرعون اور ہامان کا تسلط قائم رہ سکا۔ پھر خاندانی نظام کو دیکھیں کس طرح نسل درنسل سلسلہ چل رہا ہے۔ آج ہمیں اپنے ہی آباؤ اجداد کی تیسری نسل سے اوپر کا کچھ علم نہیں۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی اس سنت کا نتیجہ تھا اور ہے جس کے بارے میں یہاں ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اور جسے چاہے لوگوں کو ایک دوسرے کی جگہ پر لاکھڑا کرے۔ اے اہل مکہ اور دنیا جہان کے انسانو ! اللہ تعالیٰ کی اس سنت اور قوت اختیار پر سوچو اور غور کرو کہ تم نے پہلوں کی طرح ہمیشہ نہیں بیٹھا رہنا۔ جب اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کی نشانی ظاہر کرے گا تو تم اس کی قدرت و سطوت کے سامنے دم نہیں مار سکو گے۔ یاد رکھو قیامت ضرور برپا ہونے والی ہے اور تم اس کے برپا ہونے پر اللہ تعالیٰ کو بے بس اور عاجز نہیں کرسکتے۔ لہٰذا ہوش کے ناخن لو اور اپنے رب کے تابعدار بن جاؤ۔ (عَنْ أبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) أَوَّلُ زُمْرَۃٍ تَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مِنْ أُمَّتِی عَلٰی صُورَۃِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ عَلٰی أَشَدِّ نَجْمٍ فِی السَّمَاءِ إِضَاءَ ۃً ثُمَّ ہُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ مَنَازِلُ لَا یَتَغَوَّطُونَ وَلَا یَبُولُونَ وَلَا یَمْتَخِطُونَ وَلَا یَبْزُقُونَ أَمْشَاطُہُمُ الذَّہَبُ وَمَجَامِرُہُمُ الْأَلُوَّۃُ وَرَشْحُہُمُ الْمِسْکُ أَخْلَاقُہُمْ عَلٰی خُلُقِ رَجُلٍ وَّاحِدٍ عَلٰی طُولِ أَبِیہِمْ آدَمَ سِتُّونَ ذِرَاعًا) [ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ ونعیمہا، باب أَوَّلُ زُمْرَۃٍ تَدْخُلُ الْجَنَّۃَ عَلَی صُورَۃِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ وَصِفَاتُہُمْ وَأَزْوَاجُہُمْ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا میری امت کا جنت میں داخل ہونے والا گروہ چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتے چہروں کے ساتھ ہوگا پھر ان کے بعد آسمان پر روشن ستاروں کی طرح پھر درجہ بدرجہ ہوں گے جنتی نہ پیشاب کریں گے نہ قضائے حاجت کی ضرورت ہوگی وہ تھوکیں گے بھی نہیں ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی۔ ان کی انگیٹھیاں عود کی اور ان کے پسینے مشک عنبر کی طرح ہوں گے۔ ان سب کا ایک ہی طرح کا اخلاق ہوگا اور قدو قامت آدم (علیہ السلام) کے برابر یعنی ساٹھ ہاتھ ہوگی۔“ ( عَنْ قَتَادَۃَ (رض) حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ أَنَّ رَجُلًا قَالَ یَا رَسُول اللّٰہِ کَیْفَ یُحْشَرُ الْکَافِرُ عَلٰی وَجْہِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ قَالَ أَلَیْسَ الَّذِی أَمْشَاہُ عَلٰی رِجْلَیْہِ فِی الدُّنْیَا قَادِرًا عَلٰی أَنْ یُمْشِیَہُ عَلٰی وَجْہِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ قَالَ قَتَادَۃُ بَلَی وَعِزَّۃِ رَبِّنَا)[ رواہ مسلم، کتاب القیامۃ والجنۃ والنار، باب یحشر الکافر علی وجھہ] ” حضرت قتادہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت انس بن مالک (رض) نے بیان کیا ایک شخص نے استفسار کیا اے اللہ کے رسول! کافروں کو قیامت کے دن چہرے کے بل کس طرح اکٹھا کیا جائے گا۔ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا کیا وہ ذات جو سب کو دنیا میں پاؤں کے بل چلانے پر قادر ہے وہ قیامت کے دن منہ کے بل چلانے پر قادر نہیں ؟ حضرت قتادہ کہتے ہیں ہمیں اپنے رب کی عزت کی قسم کیوں نہیں“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) یُؤْتٰی بِأَنْعَمِ أَہْلِ الدُّنْیَا مِنْ أَہْلِ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُصْبَغُ فِی النَّارِ صَبْغَۃً ثُمَّ یُقَالُ یَا ابْنَ آدَمَ ہَلْ رَأَیْتَ خَیْرًا قَطُّ ہَلْ مَرَّ بِکَ نَعِیمٌ قَطُّ فَیَقُولُ لَا وَاللّٰہِ یَا رَبِّ وَیُؤْتٰی بِأَشَدِّ النَّاسِ بُؤْسًا فِی الدُّنْیَا مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ فَیُصْبَغُ صَبْغَۃً فِی الْجَنَّۃِ فَیُقَالُ لَہٗ یَا ابْنَ آدَمَ ہَلْ رَأَیْتَ بُؤْسًا قَطُّ ہَلْ مَرَّ بِکَ شِدَّۃٌ قَطُّ فَیَقُولُ لَا وَاللّٰہِ یَا رَبِّ مَا مَرَّ بِی بُؤْسٌ قَطُّ وَلَا رَأَیْتُ شِدَّۃً قَطُّ) [ رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب الکافر الغداء لملء الأرض ذھبا] ” حضرت انس بن مالک (رض) کہتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا قیامت کے دن دنیا میں سب سے زیادہ نعمتوں میں پلنے والے شخص کو لایا جائے گا تو اسے جہنم میں صرف ایک غوطہ دیا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا اے ابن آدم! تم نے کبھی کوئی بھلائی دیکھی تو وہ کہے گا اللہ کی قسم ! کبھی نہیں، پھر دنیا میں مصائب میں زندگی گزارنے والے کو لایا جائے گا اسے جنت کا ایک جھونکا دیا جائے گا تو اس سے پوچھا جائے گا اے انسان کیا تم نے کبھی کوئی تنگدستی دیکھی؟ تو وہ کہے گا اللہ کی قسم میں نے کبھی کوئی مشکل نہیں دیکھی۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کسی بستی کو اپنا پیغام پہنچائے بغیر ہلاک نہیں کرتا۔ 2۔ لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق ہی جزا، سزا ملے گی۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کسی کے عمل سے غافل نہیں ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے اچھے اور برے اعمال سے بے نیاز ہونے کے باوجود اس دنیا میں اپنی رحمت سے نوازنے والا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ ایک قوم کو ختم کرکے دوسری قوم کو لانے پر قادر ہے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ تفسیر بالقرآن :اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا : 1۔ تیرا رب بندوں پر ظلم نہیں فرماتا۔ (الانفال :51) 2۔ جو شخص نیک اعمال کرے اس کا صلہ اسے ملے گا اور جو برائی کرے گا اس کا وبال اس پر ہوگا تیر ارب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ (حٰم السجدۃ:46) 3۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان تبدیل نہ ہوگا اور اللہ کسی پر ظلم نہیں فرمائے گا۔ (قٓ :29) 4۔ اللہ تعالیٰ لوگوں پر ظلم نہیں فرماتا لیکن لوگ اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔ (یونس :44)