سورة الانعام - آیت 125

فَمَن يُرِدِ اللَّهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ ۖ وَمَن يُرِدْ أَن يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ ۚ كَذَٰلِكَ يَجْعَلُ اللَّهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

غرض جس شخص کو اللہ ہدایت تک پہنچانے کا ارادہ کرلے، اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے، اور جس کو (اس کی ضد کی وجہ سے) گمراہ کرنے کا ارادہ کرلے، اس کے سینے کو تنگ اور اتنا زیادہ تنگ کردیتا ہے کہ (اسے ایمان لانا ایسا مشکل معلوم ہوتا ہے) جیسے اسے زبردستی آسمان پر چڑھنا پڑ رہا ہو۔ اسی طرح اللہ (کفر کی) گندگی ان لوگوں پر مسلط کردیتا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : کفار کے کفر، مشرکوں کے شرک اور منافقوں کی منافقت کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ان کے سینے اسلام کے بارے میں بند ہوجاتے ہیں۔ قرآن مجید نے ہدایت پانے اور بات کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے یہ اصول بیان کیا ہے کہ سننے والا پوری توجہ، دل کی حاضری اور ہدایت پانے کے لیے بات سنے یقیناً اللہ تعالیٰ اسے ہدایت سے بہرہ مند کردیتا ہے۔ ( ق :37) لیکن منکرین حق کی شروع سے ہی یہ بری عادت ہے کہ وہ سچی بات قبول کرنا تو درکنار اس کی سماعت بھی ان کے لیے گرانی کا باعث ہوا کرتی ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کفار نے یہاں تک معاندانہ رویہ اختیار کیا کہ جب حضرت نوح (علیہ السلام) توحید کی دعوت دیتے تو کفاراپنے کانوں میں انگلیاں ڈال کر اپنے چہرے چھپاتے ہوئے ان سے دور بھاگ جاتے تھے۔ ﴿قَالَ رَبِّ إِنِّی دَعَوْتُ قَوْمِی لَیْلًا وَنَہَارًا۔ فَلَمْ یَزِدْہُمْ دُعَائِی إِلَّا فِرَارًا وَإِنِّی کُلَّمَا دَعَوْتُہُمْ لِتَغْفِرَ لَہُمْ جَعَلُوا أَصَابِعَہُمْ فِی آَذَانِہِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِیَابَہُم وَأَصَرُّوا واسْتَکْبَرُوا اسْتِکْبَارًا﴾ [ نوح : 5تا7] ” نوح (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے رب میں نے اپنی قوم کو رات دن دعوت دی مگر میری دعوت سے ان کے فرار میں اضافہ ہوا اور میں نے جب بھی انہیں بلایا تاکہ تو انہیں معاف کر دے تو انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں اور اپنے کپڑے اوڑھ لیے۔ اور اپنی روش پر اڑ گئے اور تکبر کی انتہاکر دی۔“ یہی رویہ منکرین حق نے نبی اکرم (ﷺ) کے ساتھ اختیار کیا۔ جب انھیں قرآن مجید غور کے ساتھ سننے کی طرف توجہ دلائی جاتی تو وہ بظاہر غور کے ساتھ سنتے لیکن حقیقت میں عدم توجہ اختیار کیے رکھتے اور آخر میں کہتے یہ باتیں ہمارے فہم و ادراک سے باہر اور قوت سماعت کے لیے بوجھ کے سوا کچھ بھی نہیں اس طرح جو حکم بھی ان کے پاس آتا وہ اس کا مسلسل انکار کردیتے اور اس پر پروپیگنڈے کے ذریعے غالب آنے کی کوشش کرتے جو شخص حق بات سننے سے احتراز کرے اسے کس طرح ہدایت نصیب ہو سکتی ہے۔ کیونکہ ہدایت اسے نصیب ہوتی جو اسے پانے کی خواہش اور کوشش کرتا ہے۔ جب انسان خلوص نیت کے ساتھ چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا سینہ کھول دیتا ہے لیکن جو اس سے مسلسل اعراض کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا سینہ بند کردیتا ہے۔ اس کے لیے ہدایت پانا ایسے ہی مشکل ہوتا ہے جیسا کہ انسان کا آسمان پر چڑھنا ناممکنات میں سے ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ گمراہ انسان نے اپنے لیے خود گمراہی کو پسند کیا ہوا ہے۔ لہٰذا یہ کج فکری اس کے لیے گندے اعمال کا سبب ہوتی ہے اور یہ گندگی اس کے برے عقیدہ کی وجہ سے ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ گندگی اس پر ہمیشہ کے لیے مسلط کردی جاتی ہے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا اسلام کی طرف ہدایت دیتا ہے۔ 2۔ کافر ایمان لانے میں تنگی محسوس کرتے ہیں۔ 3۔ کافروں کے ارادۂ کفر و شرارت کی وجہ سے انھیں راہ ہدایت کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔ 4۔ کفر و شرک گندگی ہے جو کافر اور مشرک پر مسلط ہوجاتی ہے۔ تفسیر بالقرآن : کن لوگوں پر گمراہی مسلط ہوتی ہے : 1۔ ایمان نہ لانے والوں پر گمراہی مسلط کردی جاتی ہے۔ (الانعام :125) 2۔ شیطان کی دوستی اختیار کرنے والوں گمراہی مسلط کردی جاتی ہے۔ (الاعراف :30) 3۔ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جن کو اللہ نے ہدایت عطا کی اور کچھ پر اللہ نے گمراہی مسلط کردی۔ (النحل :36) 4۔ جن لوگوں پر گمراہی مسلط کردی جاتی ہے وہ ایمان نہیں لاتے۔ (یونس :96)