سورة الانعام - آیت 122

أَوَمَن كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَن مَّثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا ۚ كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْكَافِرِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ذرا بتاؤ کہ جو شخص مردہ ہو، پھر ہم نے اسے زندگی دی ہو، اور اس کو ایک روشنی مہیا کردی ہو جس کے سہارے وہ لوگوں کے درمیان چلتا پھرتا ہو (٥٤) کیا وہ اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جس کا حال یہ ہو کہ وہ اندھیروں میں گھرا ہوا ہو جن سے کبھی نکل نہ پائے ؟ اسی طرح کافروں کو یہ سجھا دیا گیا ہے وہ جو کچھ کرتے رہے ہیں، وہ بڑا خوشنما کام ہے۔

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : ربط کلام : مردار اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور کھانے، سے آدمی کا ضمیر اور ایمان مردہ ہوجاتا ہے۔ یہاں ان دونوں کا تقابل کیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر انسان کی زندگی دو عناصر پر مشتمل ہے جسم کو قائم رکھنے کے لیے بہتر فضا اور اچھی غذا کی ضرورت ہے۔ روح کو بیدار اور صحت مند رکھنے کے لیے گناہوں سے اجتناب اور کفرو شرک سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔ خوراک اور آب و ہوا مناسب نہ ہو تو جسمانی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔ روح کی خوراک، اچھے اعمال اور عقیدۂ توحید ہے۔ جس قدر آدمی کے اعمال اور اس کا عقیدہ کمزور ہوگا اتنی ہی اس کی روح کمزور ہوتی چلی جائے گی۔ یہاں تک کہ زندہ ہونے کے باوجود انسان روحانی طور پر مردہ ہوجاتا ہے۔ یہاں مردار خوری اور غیر اللہ کے نام وقف کی ہوئی چیز سے بچنے کو زندگی قرار دیا گیا ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ یہ طرز زندگی عطا فرمائے گو یا کہ وہ زندہ انسان ہے۔ وہ لوگوں میں تابناک، اور شاندار زندگی بسر کر رہا ہے۔ روشنی کا منبع اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب اور اس پر چلنے کی توفیق ہے۔ جسے سورۃ ابراہیم کی دوسری آیت میں یوں بیان فرمایا ہے اس کتاب کو ہم نے اپنے رسول پر نازل کیا تاکہ اللہ کے حکم کے مطابق لوگوں کو ہر قسم کی تاریکیوں سے نکال کر واضح اور شاندار روشنی میں لاکھڑا کرے۔ ( البقرۃ، آیت :257) میں ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ ایمانداروں کا مربی اور دوست ہے وہ انھیں ہر قسم کی ظلمات سے نکال کر ایمان کی روشنی کی طرف لاتا ہے اور کفار کے دوست شیاطین ہیں جو انھیں ایمان اور توحید کی روشنی سے نکال کر شرک و بدعت اور گناہوں کی تاریکیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ یہاں اسی بات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اللہ کی عطا کردہ روشنی میں زندگی بسر کرنے والا ایسے شخص کی مانند نہیں ہوسکتا جو کفر و شرک کی تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہو۔ اسے اندھیروں سے کوئی نکالنے والا نہیں گویا کہ جو علماء لوگوں کو شرک اور غیر اللہ کے نام پر وقف کی ہوئی چیزیں کھانے کی دعوت دیتے ہیں وہ لوگوں کو ایمان کی روشنی سے نکال کر بدعت و شرک کے اندھیروں میں گھسیٹتے ہیں۔ گمراہ علماء کے پیروکار اس لیے اندھیروں سے نکل کر ایمان کی روشنی کی طرف نہیں آتے کیونکہ باطل عقیدہ اور برے اعمال ان کے لیے خوبصورت بنا دیے گئے ہیں۔ یہی و جہ ہے کہ ایسے لوگ توحید کے دلائل سننے اور ماننے میں گرانی محسوس کرتے ہیں اور شرک و بدعت کو اپنانے اور برے اعمال اختیار کرنے کو فیشن اور دین سمجھتے ہیں۔ مسائل : 1۔ قرآن مجید ہدایت کی طرف بلاتا ہے۔ 2۔ عقیدۂ توحید زندگی کی علامت ہے۔ 3۔ کافر اپنی بد اعمالیوں میں مگن رہتا ہے۔ 4۔ کافر دنیا کی خوش نما اور عارضی زندگی پر بھروسہ رکھتا ہے۔ 5۔ حرام کھانے سے انسان کا ضمیر مردہ ہوجاتا ہے۔ 6۔ ایمان روشنی ہے اور گمراہی اندھیرا ہے۔ 7۔ ایمان دار زندہ ہے اور گمراہ انسان مردہ ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : نور اور اندھیرے : 1۔ ” اللہ“ ایمان والوں کا دوست ہے انہیں اندہیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔ (البقرۃ:257) 2۔ اندھا اور بینااندہیرا اور روشنی برابر نہیں ہو سکتے۔ (فاطر :20) 3۔ اللہ وہ ذات ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ لوگوں کو اندہیروں سے روشنی کی طرف لائیں۔ (الحدید :9) 4۔ جس کا سینہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لیے کھول دیا وہ اللہ کی طرف سے روشنی پر ہے۔ (الزمر :22) 5۔ تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس نے روشنی اور اندہیروں کو پیدا کیا۔ (الانعام :1)