أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا ۚ وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِّن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ
(اے پیغمبر ! ان لوگوں سے کہو کہ) کیا میں اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو فیصل بناؤں، حالانکہ اسی نے تمہاری طرف یہ کتاب نازل کرکے بھیجی ہے جس میں سارے (متنازعہ) معاملات کی تفصیل موجود ہے؟ اور جن لوگوں کو ہم نے پہلے کتاب دی تھی وہ یقین سے جانتے ہیں کہ یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے حق لے کر نازل ہوئی ہے۔ لہذا تم شک کرنے والوں میں ہرگز شامل نہ ہونا۔
فہم القرآن : (آیت 114 سے 115) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ انسان کا فرض ہے کہ وہ من ساختہ بات کے پیچھے چلنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کرے جس کے لیے اس نے مفصل کتاب نازل فرمائی ہے۔ انسان پر شیطان کا تسلط قائم ہوجائے تو وہ اللہ کا بندہ بننے کے بجائے اپنے نفس اور شیطان کا غلام بن کر رہ جاتا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں ایسا شخص اپنے نفس کا بندہ بن جاتا ہے اور وہ آخرت سے بے پروا ہو کر اپنے نظریات کو شریعت کا متبادل سمجھتے ہوئے اس کی پیروی کرتا ہے اس سوچ اور طرز عمل کی مذمت کرتے ہوئے رسول محترم (ﷺ) کی زبان سے کہلوایا گیا ہے کہ کیا میں اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا حاکم تصور کرلوں حالانکہ فیصلہ کرنے والا تو صرف وہی ہے اور اس نے انسانوں کو شیطان اور نفس کی پیروی سے منع کیا ہے اور لوگوں کی ہدایت کے لیے جامع اور مفصل کتاب نازل فرمائی ہے۔ ﴿اِلَیْکُمْ﴾ کا اشارہ اور ضمیر لا کر منکرین وحی کو فرمایا ہے کہ اگر تمھیں رسول کے برحق اور قرآن مجید کے من جانب اللہ ہونے پر شک ہے تو اہل علم سے اس کے بارے میں پوچھ لیجیے۔ اہل علم سے مراد خاص کروہ صحابہ ہیں جو عیسائی اور یہودی مذہب چھوڑ کر حلقۂ اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ ہی یہود و نصاریٰ کے حق گو دانشور بھی شامل ہیں جو اپنے مذہب پر رہنے کے باوجود قرآن مجید کے من جانب اللہ ہونے کی کھلی گواہی دیتے ہیں۔ قرآن مجید کی صداقت و عظمت کے پیش نظر نبی محترم (ﷺ) کو فرمایا گیا ہے کہ آپ کو قرآن کے من جانب اللہ اور اس کی ہدایت پر کسی قسم کا اندیشہ اور شک نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہر بات کو سننے اور جاننے والا ہے۔ اس میں بظاہر آپ (ﷺ) کی ذات مخاطب ہے مگر حقیقتاً پوری بنی نوع انسان شامل ہے۔ ان دو آیات میں قرآن مجید کے سات اوصاف کا ذکر کیا گیا ہے۔ 1۔ قرآن مجید اللہ کا نازل کردہ ہے۔ 2۔ احکام و مسائل میں جامع اور مفصل کتاب ہے۔ 3۔ اس کی رہنمائی اور ہدایت میں کسی قسم کا نقصان اور شک کی گنجائش نہیں۔ 4۔ قرآن اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے۔ 5۔ قرآن مجید کے احکام عدل و انصاف پر مبنی ہیں۔ 6۔ قرآن مجید کے ارشادات اور اس کی پیش گوئیاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے برحق ہیں۔ 7۔ قرآن مجید ہر اعتبار سے تغیر و تبدل سے پاک ہے اور قیامت تک اس کے محفوظ رہنے کی ضمانت دی گئی ہے۔ ﴿وَقَالُوْا یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْہِ لذِّکْرُ اِنَّکَ لَمَجْنُوْنٌ﴾ [ الحجر :6] ” اللہ رب العزت فرماتے ہیں جسے قرآن پاک کی تلاوت اور میرے ذکر نے مجھ سے مانگنے سے مشغول رکھا میں اسے مانگنے والوں سے زیادہ عطاکروں گا۔“ قرآن مجید کی تلاوت کا ثواب : (یَقُوْلُ الرَّبُّ عَزَّوَجَلَّ مَنْ شَغَلَہُ الْقُرْآنُ وَذِکْرِیْ عَنْ مَسْأَلَتِیْ اَعْطَیْتُہٗ اَفْضَلَ مَآ اُعْطِیَ السَّآئِلِیْنَ) [ رواہ الترمذی : کتاب فضائل القرآن، باب ماجاء کیف کانت قراء ۃ النبی] ” اللہ رب العزت فرماتے ہیں جسے قرآن پاک کی تلاوت اور میرے ذکر نے مجھ سے مانگنے سے مشغول رکھا میں اسے مانگنے والوں سے زیادہ عطا کروں گا۔“ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات بڑائی وکبریائی اور خیر و برکت کے لحاظ سے یکتا اور تنہا ہے یہی مقام ذکر واذکار میں تلاوت قرآن مجید کو حاصل ہے۔ قرآن مجید کو زندگی کا رہنما بنانے سے دنیا و آخرت کے مسائل ومصائب کا مداوا ہونے کی ضمانت دی گئی ہے۔ اس کتاب مقدس سے انحراف اور بے اعتنائی کرناپریشانیوں اور ناکامیوں کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ (اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَّ یَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ) [ رواہ مسلم : کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا] ” یقیناً اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے قوموں کو بلند فرماتا ہے اور اسی کے سبب لوگوں کو ذلیل کرتا ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) یَقُوْلُ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِّنْ کِتَاب اللّٰہِ فَلَہٗ بِہٖ حَسَنَۃٌ وَالْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ أَمْثَالِھَا لَا أَقُوْلُ الم حَرْفٌ وَلٰکِنْ أَلْفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِیْمٌ حَرْفٌ) [ ترمذی : کتاب فضائل القرآن] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جس نے اللہ کی کتاب کا ایک حرف پڑھا اسے اس کے بدلے ایک نیکی ملے گی اور ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے میں یہ نہیں کہتا کہ ” الم“ ایک حرف ہے بلکہ ” الف“ ایک حرف ہے اور ” لام“ ایک حرف ہے ” اور ” میم“ ایک حرف ہے۔“ مسائل :1۔ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے مطابق فیصلے کرنے چاہییں۔ 2۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب ہے۔ 3۔ قرآن مجید میں کسی قسم کا رد و بدل نہیں کیا جا سکتا۔ 4۔ قرآن مجید قیامت تک محفوظ رہے گا۔ 5۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن :اللہ کا کلام حق اور اس کے وعدے سچے ہیں : 1۔ اللہ تعالیٰ سچ فرماتا ہے۔ (الاحزاب :4) 2۔ اللہ تعالیٰ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا۔ (الاحزاب :53) 3۔ جان لو اللہ تعالیٰ کا وعدہ حق ہے۔ (القصص :13) 4۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ حق ہے تمھیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے۔ (لقمان :33) 5۔ اللہ تعالیٰ سے بات کرنے کے لحاظ سے کون زیادہ سچا ہے۔ (النساء :87) 6۔ اللہ کے قول سے بڑھ کر کس کا قول ہوسکتا ہے۔ (النساء :122) 7۔ کہہ دیجیے کیا تم نے اللہ سے عہد لیا ہے تو اللہ اپنے عہد کے خلاف نہیں کرے گا۔ (البقرۃ:80) 8۔ وہ عذاب کی جلدی مچاتے ہیں اللہ اپنے وعدے کے ہرگز خلاف نہیں کرے گا۔ (الحج :47) 9۔ اے ہمارے پروردگارتو قیامت کے دن لوگوں کو جمع فرمائے گا اور تو اس کے خلاف نہیں کریگا۔ (آل عمران :9)