سورة الانعام - آیت 111

وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَىٰ وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اگر بالفرض ہم ان کے پاس فرشتے بھیج دیتے، اور مردے ان سے باتیں کرنے لگتے، اور (ان کی مانگی ہوئی) ہر چیز ہم کھلی آنکھوں ان کے سامنے لاکر کے رکھ دیتے (٤٩) تب بھی یہ ایمان لانے والے نہیں تھے، الا یہ کہ اللہ ہی چاہتا (کہ انہیں زبردستی ایمان پر مجبور کردے تو بات دوسری تھی، مگر ایسا ایمان نہ مطلوب ہے نہ معتبر) لیکن ان میں سے اکثر لوگ جہالت کی باتیں کرتے ہیں۔ (٥٠)

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : ربط کلام : منکرین حق کے لایعنی مطالبات کا دوسرا جواب اور ان کی حیثیت۔ جیسا کہ پہلی آیات کی تفسیر میں عرض کیا جا چکا ہے کہ منکرین حق رسول معظم (ﷺ) کو لاجواب اور مسلمانوں کو پھسلانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے اور مطالبات کرتے رہتے تھے۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ دلائل اور معجزات تو بہت آچکے لیکن یہ لوگ اپنی باغیانہ فطرت کی وجہ سے انھیں تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اب اسی بات کو کھول کر یوں بیان کیا گیا ہے کہ اگر ہم آسمان سے ملائکہ نازل کریں اور وہ آواز پر آواز دیں کہ لوگو یہ رسول سچاہے اور پھر مردوں کو قبروں سے اٹھا کر ان کے سامنے لا کھڑا کیا جائے اور وہ دہائی دیتے ہوئے کہیں کہ واقعی ہمارے مرنے کے بعد ہم سے اللہ، اس کے رسول اور ہمارے اعمال کے بارے میں سوال ہوا لیکن ہم ٹھیک ٹھیک جواب نہ دے سکے جس کی وجہ سے ہمیں اذیت ناک عذاب میں مبتلا رکھا گیا ہے جس کا تم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اسی طرح ان کا ہر مطالبہ تسلیم کیا جائے تو پھر بھی یہ بدفطرت لوگ کبھی اللہ کی توحید کا اقرار اس کے رسول پر سچا اعتقاد اور آخرت کی جو ابد ہی پر ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ ان کی اکثریت جہلا پر مشتمل ہے سوائے ان لوگوں کے جن کا ایمان لانا اللہ کی مشیت میں لکھا ہوا ہے۔ یاد رہے منکرین حق کے ان مطالبات سے پہلے ایسے معجزات آچکے تھے جن کی حقیقت کو یہ اچھی طرح جان چکے تھے پھر نبی محترم (ﷺ) کا اپنی سچائی کی تائید کے لیے یہ کہہ کراپنے ماضی کا حوالہ پیش کرنا کہ میں نے تم میں چالیس سال کا طویل عرصہ گزارا ہے کیا تمھیں میری دیانت و امانت اور حق و صداقت پر کوئی شبہ ہے ؟ جس کے جواب میں منکرین حق نے بیک زبان اقرار کیا تھا۔ (مَا جَرَّبْنَا عَلَیْکَ إِلاَّ صِدْقًا) ” ہم نے آپ کو ہمیشہ سچا پایا ہے“ قرآن مجید کے بارے میں بار بار چیلنج دیا گیا کہ اگر تمھارے الزام میں کوئی حقیقت ہے کہ یہ نبی اپنی طرف سے قرآن بنا کر پیش کرتا ہے تو سب مل کر کوئی ایک سورۃ ہی بنا لاؤ۔ جس کا جواب کفار نہ دے سکے اور نہ قیام قیامت تک کوئی دے سکے گا۔ اس کے ساتھ ہی ان کے سامنے چاند دو ٹکڑے ہوا پتھروں نے رحمت دو عالم (ﷺ) کی رسالت کی شہادت دی اور آپ کی بیان کی ہوئی ایک ایک پیشگوئی سچ ثابت ہوئی۔ ان معجزات اور نشانیوں سے بڑھ کر کون سی نشانی اور معجزات ہو سکتے تھے جس کا وہ لوگ مطالبہ کرتے تھے۔ اس وجہ سے یہ جواب دیا گیا کہ ان کی ہر بات مان لی جائے پھر بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ ایسا اس لیے ہے کہ ان کی جہالت ان پر غالب آچکی ہے۔ یہاں جہالت سے مراد ان پڑھ نہیں بلکہ اکھڑ مزاجی اور ہٹ دھرمی ہے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح کے دلائل اور معجزات نازل کرنے پر قادر ہے۔ 2۔ کافر عناد اور قساوت قلبی کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے۔ 3۔ لوگوں کی اکثریت جاہل ہوتی ہے۔ 4۔ جہالت انسان کو کفر و شرک پر آمادہ رکھتی ہے۔ 5۔ جہالت سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : لوگوں کی اکثریت جاہل اور گمراہ ہوتی ہے : 1۔ اگر ہم منکرین کے سامنے ہر چیزکو اکٹھا کردیتے تب بھی وہ ایمان نہ لاتے کیونکہ اکثر ان میں جاہل ہیں۔ (الانعام :111) 2۔ کیا زمین و آسمان کی تخلیق مشکل ہے یا انسان کی پیدائش مگر اکثر لوگ جاہل ہیں۔ (الفاطر :57) 3۔ یہ دین صاف اور سیدھا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف :40) 4۔ اللہ اپنے امر پر غالب ہے لیکن لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف :21) 5۔ اللہ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ جاہل ہیں۔ (الروم :6) 6۔ وہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور ان کی اکثریت بے عقل ہے۔ (المائدۃ:103) 7۔ قیامت کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے لیکن لوگوں کی اکثریت بے علم ہے۔ (الاعراف :187)