وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِن جَاءَتْهُمْ آيَةٌ لَّيُؤْمِنُنَّ بِهَا ۚ قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِندَ اللَّهِ ۖ وَمَا يُشْعِرُكُمْ أَنَّهَا إِذَا جَاءَتْ لَا يُؤْمِنُونَ
اور ان لوگوں نے بڑی زور دار قسمیں کھائی ہیں کہ اگر ان کے پاس واقعی کوئی نشانی (یعنی ان کا مطلوب معجزہ) آگئی تو یہ یقینا ضرور اس پر ایمان لے آئیں گے (ان سے) کہو کہ : ساری نشانیاں اللہ کے قبضے میں ہیں۔ (٤٨) اور (مسلمانو) تمہیں کیا پتہ کہ اگر وہ (معجزے) آبھی گئے تب بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے۔
فہم القرآن : (آیت 109 سے 110) ربط کلام : مشرکین اور منکرین کے باطل نظریات اور یا وہ گوئی کے مقابلے میں مسلمانوں کو اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کرنے کے بعد کفار کے لایعنی مطالبہ کا جواب اور اس کی حقیقت منکشف کی گئی ہے۔ یہود و نصاریٰ نبی اکرم (ﷺ) کو لاجواب کرنے اور مسلمانوں کو ورغلانے کے لیے یہ ہتھکنڈا بھی استعمال کیا کرتے تھے کہ جب مسلمانوں کی مجالس میں بیٹھتے تو اپنا اعتماد اور اخلاق ظاہر کرنے کے لیے قسمیں اٹھایا کرتے تھے کہ اگر یہ نشانیاں اور معجزات ہمارے سامنے پیش کیے جائیں تو ہم حلقہ بگوش اسلام ہوجائیں گے۔ ان کے ساتھ اہل مکہ کا یہ مطالبہ بھی تھا کہ صفا پہاڑ کو سونے کا بنا دیا جائے تاکہ ہماری معاشی مشکلات حل ہو سکیں اور ہم کامل یکسوئی کے ساتھ اسلام کی خدمت کرسکیں۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی جس کے جواب میں جبرائیل امین (علیہ السلام) تشریف لائے اور آپ سے کہا کہ آپ کی دعا کے بدلے یہ پہاڑ سونے میں تبدیل ہوجائے گا اگر یہ لوگ پھر بھی ایمان نہ لائے تو انھیں فی الفور صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا اگر آپ چاہیں تو انھیں مزید مہلت دی جائے تاکہ ان میں سلیم الفطرت لوگ ایمان لے آئیں۔ آپ نے اسی بات کو پسند کرتے ہوئے ان لوگوں سے فرمایا کہ معجزہ ظاہر کرنا میرے بس کی بات نہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کی عنایت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ وہ جب چاہتا ہے اپنے رسول کو عطا فرماتا ہے۔ اے رسول معجزات تو ان کے پاس پے درپے آچکے تھے لیکن جب کسی کی سوچ الٹی ہوجائے اور اس کی آنکھیں کسی چیز کو غلط زاویے سے دیکھنے لگیں تو اسے ہدایت کس طرح نصیب ہو سکتی ہے۔ اس وجہ سے ہم نے انھیں ان کی نافرمانیوں کے حوالے کردیا ہے جس میں وہ سرگرداں رہتے ہیں۔ بعض مفسرین نے ﴿ونقلب افئد تھم وابصارھم﴾ کا مفہوم یہ لیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انھیں جہنم کی طرف پھیر دے گا۔ نبی گرامی (ﷺ) کا ارشاد ہے کہ دل رحمن کے اختیار میں ہیں۔ (عَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ تُحَدِّثُ أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) کَانَ یُکْثِرُ فِی دُعَائِہٖ أَنْ یَقُول اللّٰہُمَّ مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلٰی دینِکَ قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُول اللّٰہِ أَوَإِنَّ الْقُلُوبَ لَتَتَقَلَّبُ قَالَ نَعَمْ مَا مِنْ خَلْقِ اللّٰہِ مِنْ بَنِی آدَمَ مِنْ بَشَرٍ إِلَّا أَنَّ قَلْبَہُ بَیْنَ أَصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللّٰہِ فَإِنْ شَاء اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ أَقَامَہُ وَإِنْ شَاء اللّٰہُ أَزَاغَہُ۔۔)[ رواہ احمد] ” حضرت ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں بلاشبہ رسول اللہ (ﷺ) اکثر اپنی دعاؤں میں کہا کرتے تھے اے اللہ دلوں کو پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھنا۔ وہ بیان کرتی ہیں میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول! آیا دل بھی پھیرے جاتے ہیں؟ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا ہاں! بنی آدم کے ہر فرد کا دل اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دوانگلیوں کے درمیان ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تو اس کو قائم رکھتا ہے۔ اور اگر اللہ چاہے تو اس کو پھیر دے۔۔“ ﴿رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْ ہَدَیْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً إِنَّکَ أَنْتَ الْوَہَّابُ﴾ [ آل عمران :8] ” اے ہمارے رب! ہمارے دلوں کو ہدایت دینے کے بعد پھیر نہ دینا۔ اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عنایت کر بلا شبہ تو ہی دینے والا ہے۔“ مسائل :1۔ کفار بے جامعجزات کے مطالبے کیا کرتے تھے۔ 2۔ مشرکین کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دل پھیر دیے۔ 3۔ مشرکین اپنی ہی سرکشی میں الجھے پھرتے ہیں