وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ ۖ وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَنَاتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يَصِفُونَ
اور لوگوں نے جنات کو اللہ کے ساتھ خدائی میں شریک قرر دے لیا، (٣٩) حالانکہ اللہ نے ہی ان کو پیدا کیا ہے۔ اور مجھ بوجھ کے بغیر اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں تراش لیں۔ (٤٠) حالانکہ اللہ کے بارے میں جو باتیں یہ بناتے ہیں وہ ان سب سے پاک اور بالاوبرتر ہے۔
فہم القرآن : (آیت 100 سے 102) ربط کلام : توحید کے دلائل دیتے ہوئے مشرکوں کے عقیدہ کی بے ثباتی ثابت کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو ہر اعتبار سے وحدہٗ لاشریک قرار دیا ہے۔ آیت 95تا 99میں نباتات، آفاق، انسان کی پیدائش اور اس کی عارضی اور مستقل قیام گاہ کا حوالہ دے کر۔ غور وفکر کی کی دعوت دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی ذات پر بلا شرکت غیرے ایمان لانے کی تلقین کی گئی ہے۔ لیکن شرک ایسا مہلک مرض ہے کہ جس کی وجہ سے انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ماؤف ہوجاتی ہیں جس کی بنا پر کسی شہادت اور دلیل کے بغیر لوگ جنات، ملائکہ، شمس وقمر، نباتات وجمادات یہاں تک کہ اپنے جیسے بلکہ اپنے سے بھی کم تر انسانوں، دیوانوں، مجذوبوں اور حو اس باختہ لوگوں کو کائنات کے نظام میں دخیل اور اللہ تعالیٰ کے اختیارات میں شریک سمجھ کر نہ صرف انھیں مشکل کشا اور حاجت روا خیال کرتے ہیں بلکہ ملائکہ، جنات کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں اور بعض شخصیات کو اللہ تعالیٰ کی اولاد تصور کرتے ہیں تاکہ خدا کی خدائی میں ان کی شراکت ثابت کی جاسکے۔ جیسا کہ یہودیوں نے جناب عزیر (علیہ السلام) اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا اور ان کی والدہ حضرت مریم علیھا السلام کو خدا کی بیوی قرار دیا ہے۔ اللہ کی ذات کسی کی شراکت سے مبرا اور اولاد کی حاجت سے بے نیاز ہے۔ کسی کو اللہ تعالیٰ کی اولاد یا شریک ٹھہرانا مشرکوں کی ذہنی پستی اور فکری دیوانگی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے باطل تصور ات اور ہر قسم کی یاوا گوئی سے پاک اور مبرّا ہے کائنات کی تخلیق کے لیے بدیع کا لفظ استعمال فرما کر واضح کیا کہ جس اللہ نے بغیر کسی پہلے سے موجود نقشے اور میٹریل کے اوپر نیچے سات آسماں اور تہ بہ تہ سات زمینیں پیدا کی ہیں۔ اسے اولاد کی کیا حاجت ہے ؟ اولاد انسان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور قلبی سکون کا باعث، اس کی زندگی کا سہارا، معاملات میں اس کی معاون اور اس کے سلسلۂ نسب قائم رہنے کا وسیلہ ہے۔ اولاد ہونے کا منطقی نتیجہ ہے کہ اس کی بیوی ہو کیونکہ بیوی کے بغیر اولاد کا تصور محال ہے جبکہ فرشتوں اور جنات کو خدا کی بیٹیاں، بعض انبیاء (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا قرار دینے سے اللہ تعالیٰ کی بیوی ثابت کرنا لازم ہوجاتا ہے۔ اولاد کسی نہ کسی طرح باپ کے مشابہ اور اس کی ہم جنس اور ہم نسل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان حاجات اور تمثیلات سے پاک ہے۔ مشرک بتائیں کہ زمین و آسمانوں میں کون سی چیز اللہ تعالیٰ کی مشابہ اور ہم جنس ہے؟ پھر کائنات کی ہر چیز کی ابتداء، انتہا اور اس کے لیے فنا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اس وقت بھی تھی جب کچھ نہیں تھا اور وہ اس وقت بھی ہوگی جب ہر چیز فنا کے گھاٹ اتر جائے گی۔ کائنات کی ہر چیز پر حالات و واقعات کے منفی یا مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہمیشہ ایک ہی حالت پر قائم ودائم ہے۔ وہ ضعف و کمزوری اور نقص و نقصان سے پاک ہے۔ نہ اس کی ذات سے کوئی چیز پیدا ہوئی اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ہے وہ ہر چیز کا خالق و مالک اور ذمہ دار ہے۔ وہ زمین کے ذرّے ذرّے اور آسمانوں کے چپہ چپہ کو جاننے اور ہر انسان کے خیالات سے واقف ہے اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ مشرک کس بنا پر شرک کرتے ہیں۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) قَال اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ یُؤْذِینِی ابْنُ آدَمَ یَسُبُّ الدَّہْرَ وَأَنَا الدَّہْرُ بِیَدِی الْأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ)[ رواہ البخاری : کتاب تفسیر القران، باب ومایہلکنا الا الدہر] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ابن آدم مجھے تکلیف دیتا ہے اس کا مجھے تکلیف دینا یہ ہے کہ وہ زمانے کو گا لیاں دیتا ہے حالانکہ زمانہ میں ہوں۔ میرے ہاتھ میں ہی معاملات ہیں میں ہی رات دن کو پھیرتا ہوں۔“ (عن أَنَس بن مالِکٍ (رض) یَقُولُ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) لَنْ یَبْرَحَ النَّاسُ یَتَسَاءَ لُونَ حَتّٰی یَقُولُوا ہَذَا اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ فَمَنْ خَلَقَ اللّٰہَ )[ رواہ البخاری : کتاب الإعتصام بالکتاب والسنۃ ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا لوگ باہم ایک دوسرے سے سوال کرتے رہیں گے اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے تو اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا ہے؟“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) لَا یَزَال النَّاسُ یَتَسَاءَ لُونَ حَتّٰی یُقَالَ ہٰذَا خَلَقَ اللّٰہُ الْخَلْقَ فَمَنْ خَلَقَ اللّٰہَ فَمَنْ وَجَدَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا فَلْیَقُلْ آمَنْتُ باللّٰہِ ورسلہ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب بیان الوسوسۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی اکرم (ﷺ) کا فرمان بیان کرتے ہیں کہ لوگ ہمیشہ ایک دوسرے سے سوال کرتے رہیں گے یہاں تک کہ کہا جائے گا مخلوق اللہ نے پیدا کی ہے لیکن اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے؟ جو شخص اس قسم کے خیالات پائے اسے یہ کہنا چاہیے میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتا ہوں۔“ مسائل :1۔ کسی کو اللہ کا بیٹا یا بیٹی قرار دینا بہت بڑا شرک ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح کے شرک سے پاک اور مبّرا ہے۔ 3۔ آسمانوں اور زمین کو بنانے والا صرف اللہ ہے۔ 4۔ ساری کائنات کو بنانے والا صرف اللہ ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا بخوبی علم ہے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ بہترین کار ساز ہے۔ تفسیر بالقرآن :اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق ہے : 1۔ اللہ تمھارا رب ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہی ہر چیز کا خالق ہے۔ (الانعام :102) 2۔ آپ فرما دیں اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وہی واحدا ور قہار ہے۔ (الرعد :16) 3۔ اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ہر چیز کا کفیل ہے۔ (الزمر :62) 4۔ کیا اللہ کے علاوہ بھی کوئی خالق ہے جو تمھیں روزی دیتا ہے۔ (الفاطر :3)