وَهُوَ الَّذِي أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ نَبَاتَ كُلِّ شَيْءٍ فَأَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًا وَمِنَ النَّخْلِ مِن طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِيَةٌ وَجَنَّاتٍ مِّنْ أَعْنَابٍ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۗ انظُرُوا إِلَىٰ ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَيَنْعِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكُمْ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اور اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے آسمان سے پانی برسایا۔ پھر ہم نے اس کے ذریعے ہر قسم کی کونپلیں اگائیں۔ ان (کونپلوں) سے ہم نے سبزیاں پیدا کیں جن سے ہم تہہ بر تہہ دانے نکالتے ہیں، اور کھجور کے گابھوں سے پھلوں کے وہ گچھے نکلتے ہیں جو (پھل کے بوجھ سے) جھکے جاتے ہیں، اور ہم نے انگوروں کے باغ اگائے، اور زیتون اور انار۔ جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں، اور ایک دوسرے سے مختلف بھی۔ (٣٨) جب یہ درخت پھل دیتے ہیں تو ان کے پھلوں اور ان کے پکنے کی کیفیت کو غور سے دیکھو۔ لوگو ! ان سب چیزوں میں بڑی نشانیاں ہیں (مگر) ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ قرآن مجید میں انسانی زندگی، پھل، پھول، نباتات اور درخت وغیرہ کے اگانے کے سلسلے میں پانی کا ذکر کئی مرتبہ آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے سبب حیات قرار دیا ہے۔ زمین کی زینت، مردہ زمین کی زندگی، پودوں اور سبزی ترکاری کی شادابی، ان کی پیدائش اور قیام، پھر ان کا رنگ برنگے پھل پھول پیدا کرنا، غلے، میوے، چارہ، بے شمار نفع آور اشیاء کا پیدا ہونا، پکنا اور انسان کے کھانے کے قابل ہونا، ان کی خوبصورتی اور زینت ان تمام چیزوں کو وجود باری تعالیٰ پر دلیل توحید الوہیت اور ربوبیت قرار دیا گیا ہے۔ ” اور وہ وہی خدا ہے جس نے اوپر سے پانی اتارا، پھر ہم نے اس کے ساتھ ہر چیز کی انگوری نکالی۔“ ہر چیز کے اگانے میں پانی کا جو کام ہے وہ شہری و دیہاتی اور عالم و جاہل پر واضح ہے۔ مگر اس کا کام اس ظاہر سے بہت آگے، بہت گہرا اور بہت مؤثر ہے۔ سائنس کی جدید ترین تحقیقات بتاتی ہیں کہ زمین کی سطح شروع شروع میں بالکل گرم تھی۔ اور وہ نباتات کو اگانے کے قابل نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ نے اسے پانی اور کئی اور فضائی عوامل سے کاشت اور بیج اگانے کے قابل بنایا۔ بارش کے ساتھ ایک قدرتی کھاد بھی نائٹروجن گیس کے ساتھ زمین پر برستی ہے۔ جو زمین کو زرخیز اور سبزی ترکاری وغیرہ اگانے کے قابل بناتی ہے۔ انسان نے بھی اسی سے کھاد بنانے اور زمین کو زرخیز کرنے کا طریقہ سیکھا ہے، پھر سورج، چاند، ہوا وغیرہ بھی اپنا اپنا کام کرتے ہیں۔ سطح زمین کے اوپر اور اس کے اندر بے شمار ایسے کیمیاوی اور غیر کیمیاوی مادے موجود ہیں جو اس سارے کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔ نباتات کے مختلف ادوار و اطوار : ” پس نکالا ہم نے اس سے سبز انگوری کو جس سے ہم تہ در تہ دانے نکالتے ہیں اور کھجور کی کونپل سے لٹکے ہوئے گچھے اور انگوروں کے باغ اور زیتون و انار باہم ملتے جلتے اور نہ ملتے جلتے۔“ ہر انگوری شروع میں سبز ہوتی ہے اور یہاں پر خضرا کا لفظ زیادہ مؤثر اور گہرا ہے بہ نسبت اخضر کے۔ اس سبز انگوری سے دانے پیدا ہوتے ہیں جو اوپر نیچے بالیوں میں سجے ہوتے ہیں۔ بعض غلے اور پھل شکل و صورت اور مزے میں باہم ملتے جلتے ہوتے ہیں اور بعض نہیں۔ ایک ہی پھل کسی زمین میں ترش اور تلخ ہوتا ہے۔ اور دوسری جگہ میٹھا۔ تاثیر میں بھی بعض ایک جیسے ہیں بعض مختلف، پھر فرمایا : ” جب وہ درخت پھل لائے تو اس کے پھل کو دیکھو، اور پھر اس کے پکنے کا مشاہدہ کرو۔“ ان پھلوں کو دیکھ کردل میں سرور اور آنکھوں میں نور پیدا ہوتا ہے۔ جب کچے ہوں تو رنگ و روپ اور رونق ہوتی ہے۔ پکنے پر آئیں تو آہستہ آہستہ بدلتے جاتے ہیں۔ اور پک کر تیار ہوں تو ہر دیکھنے والے کا جی للچا تا ہے۔ سبحان اللہ ! یہ صنعت، یہ مہارت، یہ کاری گری ایک ہی عزیز و علیم کی ہے۔ اس لیے فرمایا : ” بے شک اس میں بہت سے دلائل ہیں ان کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔“ انھیں کھا تو ہر ایک لیتا ہے لیکن نور بصیرت اور حس ایمان کے ساتھ وہی دیکھتا ہے جس میں ایمان ہو۔ پھلوں اور غلوں کے مختلف ادوار پر غور کریں گے تو ان میں ایمان باللہ، وحدانیت، قدرت، علم و صنعت ملیں گے۔ جو تمھیں زبان حال اور زبان قال سے احسن الخالقین کی حمد و ثنا پر آمادہ کریں گے۔ اتنی آیات قدرت کو دیکھ کرجو انسان کے ماحول میں اس کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے بکھری پڑی ہیں۔ جو لوگ توحید خداوندی کا اعتراف و اقرار نہ کریں، خود ساختہ معبودوں کو پکاریں، ان میں ایسی صفات اور طاقت مانیں جس کا ان میں کہیں نام و نشان نہیں۔ تو پھر یہی کہا جا سکتا ہے کہ مشرک اندھے، بہرے اور گونگے ہیں۔ بے عقل وبے شعور ہیں، ناشکرے ہیں، حیوانات سے بھی بدتر ہیں۔ اس لیے اگلی آیت میں شرک اور مشرکین اور ان کے بنائے ہوئے شرکاء کا رد کیا گیا ہے۔ زمین کے جن پودوں کے نام قرآن مجید میں آئے ہیں ان کی تعداد اور نام درج ذیل ہیں۔ 1۔ من 2۔ کھجور 3۔ زیتون 4۔ انگور 5۔ انار 6۔ انجیر 7۔ سدرہ یا بیری 8۔ جھاؤ 9۔ شجر مسواک 10۔ حنا یا کافور 11۔ ادرک 12۔ مسور 13۔ پیاز 14۔ لہسن 15۔ ککڑی 16۔ ببول عرب یا کیلا 17۔ لوکی 18۔ رائی 19۔ ریحان 20۔ زقوم 21۔ ضریع 22۔ طوبی 23۔ شجر 24۔ ثمر 25۔ برگ 26۔ اناج 27۔ زراعت 28۔ چارہ 29۔ ترکاری 30۔ افزائش نباتات کھجور : لیکن یہاں ہم صرف کھجور اور انگور کے بارے میں کچھ لکھیں گے۔ ان کو دیگر پودوں پر ایک امتیاز اور برتری حاصل ہے۔ یوں تو تمام نباتات اور پودے خالق ارض و سماء کے پیدا کیے ہوئے ہیں لیکن ان چند پودوں کا تذکرہ اس ذات الٰہی نے خود اپنے کلام میں کیا ہے، اس طرح ان پودوں کا نام ابد الآباد تک کلام الٰہی میں محفوظ ہوگیا اور کلام الٰہی میں ان کا ذکر آنے سے ان کی خصوصیتوں کا سمجھنا ایک علمی و دینی ضرورت بن گئی ہے۔ قرآنی نام : 1۔ نَخْل، نَخِیل، نَخْلَۃ دیگر نام : Date (انگریزی )، Datte (فرانسیسی)، Tamar-Tamarim (عبرانی )، کھجور (اردو، پنجابی، ہندی)، خرما (فارسی )، کھرجور (سنسکرت) کرجور و (کشمیری)۔ نباتاتی نام : (Phoenix dactylifera Linn. (Family: Palmae/Aracaceae) قرآن مجید میں کھجور کا تذکرہ : 1۔ البقرہ، آیت : 266 2۔ الانعام، آیت : 100 3۔ الرعد، آیت : 4 4۔ الانعام، آیت : 142 5۔ النحل، آیت : 10، 11 6۔ النحل، آیت : 67 7۔ بنی اسرائیل، آیت : 90، 91 8۔ الکہف، آیت : 32 9۔ مریم، آیت : 23 10۔ مریم، آیت : 24، 25 11۔ طٰہٰ، آیت :71 12۔ المؤمنون :، آیت : 19 13۔ ق ٓ، آیت : 10 14۔ یٰس ٓ، آیت : 35، 36 15۔ الشعراء، آیت : 148 16۔ الرحمن، آیت : 28، 29 17۔ الرحمن، آیت : 10، 11 18۔ القمر، آیت : 18، 20 19۔ عبس، آیت : 24، 32 20۔ الحاقۃ، آیت : 6، 7 قرآنی ارشادات کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے متعدد بار ان احسانوں اور مہربانیوں کا ذکر کیا ہے جو اس نے پھلوں کی صورت میں انسان پر کیے ہیں۔ ان پھلوں میں یوں تو انگور، انجیر، انار اور زیتون کا تذکرہ کئی بار بار آیا ہے لیکن جس پھل اور درخت کا حوالہ سب سے زیادہ دیا گیا ہے وہ کھجورہے۔ اس کا بیان نخل۔ النخیل (جمع) اور نخلۃ (واحد) کے ناموں سے بیس مرتبہ قرآن کریم میں کیا گیا ہے۔ کھجور کی قسموں اور اس کی گٹھلیوں وغیرہ کا ذکر بھی قرآن پاک میں الگ الگ ناموں سے کیا گیا ہے۔ مثلاً سورۃ الحشر آیت 5میں کھجور کی ایک نفیس قسم کو ” لینۃ“ کہا گیا ہے۔ اسی طرح سورۃ النساء کی دو آیات 53اور 124میں ” نقیرا“ کا لفظ تمثیل کے طور پر استعمال ہوا ہے جس کے لغوی معنی یوں تو کھجور کی گٹھلی میں چھوٹی سی نالی کے ہیں لیکن تشبیہ دی گئی ہے ایسی چیز سے جو نہ ہونے کے برابر یعنی حقیر ترین ہو۔ ایسی ہی مثال سورۃ فاطر آیت 13میں لفظ ” قطمیر“ سے دی گئی ہے جس کے معنی اس باریک جھلی کے ہیں۔ جو کھجور کی گٹھلی کے اوپر ہوتی ہے۔ ” النوی“ کے معنی زیادہ تر مفسرین نے عام گٹھلی کے لیے ہیں۔ ” العرجون“ کھجور کے گچھے کی ٹہنی کو کہتے ہیں جو درخت پر خشک ہو کر ہنسلی کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ چنانچہ سورۃ یٰس ٓآیت 39میں اس کی مثال نئے چاند سے دی گئی ہے۔ ” حبل“ کے معنی یوں تو کسی بھی رسی کے ہو سکتے ہیں۔ لیکن پرانے زمانے میں عرب عام طور پر کھجور کی پتیوں سے بنی ہوئی رسی مراد لیتے تھے۔ اسی طرح سورۃ القمر کی آیت 13میں لفظ ” دسر“ کا استعمال ہوا ہے، اس کے معنی بھی Palm-Fibre کے لیے گئے ہیں۔ مختلف ناموں کے حوالے سے کھجور کا ذکر قرآن حکیم میں اٹھائیس بار ہوا ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کھجور کی کاشت آٹھ ہزار سال قبل جنوبی عراق میں شروع ہوئی تھی۔ اس وقت دنیا میں کہیں بھی پھلدارپودوں کی کھیتی کا تصور تک نہ تھا۔ عربوں میں ایک پرانی کہاوت تھی کہ سال میں جتنے دن ہوتے ہیں اتنے ہی کھجور کے استعمال کے فوائد ہیں، اور حقیقت بھی کچھ ایسی ہی لگتی ہے۔ ایک طرف اس کی لکڑی عمارت اور فرنیچر بنانے کے کام آتی ہے تو دوسری جانب اس کی پتیوں سے جن کو شاخیں کہا جاتا ہے بے شمار مصنوعات تیار کی جاتی ہیں۔ کھجور کی گٹھلیاں جانوروں کے لیے موزوں چارہ ہیں اور اس کے پھل انسان کے لیے بہترین غذا ہیں۔ اس کی غذائیت کا اندازہ اس کے کیمیاوی اجزاء سے کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں تقریباً ساٹھ فیصد Invert sugar اور Sucrose کے علاوہ اسٹارچ، پروٹین، Cellulose,Pectin,Tannin اور چربی مختلف مقدار میں موجود ہیں۔ علاوہ ازیں اس میں وٹامن اے، وٹامن بی، وٹامن بی ٹو اور وٹامن سی بھی پائے جاتے ہیں۔ اس کے معدنیاتی اجزاء بھی اہمیت کے حامل ہیں، یعنی سوڈیم، کیلشیم، سلفر، کلورین، فاسفورس اور آئرن، سے بھرپور ہے۔ کھجور میں نر اور مادہ درخت ہوتے ہیں۔ دونوں کے پھولوں کے ذریعہ (Cross Polination) ہوتا ہے۔ تب ہی مادہ پودوں میں پھل آتے ہیں۔ ایک نر درخت کے پھول ایک سو مادہ درختوں کے (Polination) کے لیے کافی سمجھے جاتے ہیں۔ اسلام سے قبل عرب قبائل کی آپس کی دشمنی اور رقابت میں ایک دوسرے کو نقصان اور ضرر پہنچانے کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ دشمن کے کھجور کے باغات تہس نہس کردیے جائیں۔ نر پودوں کو خاص طور سے کاٹ دیا جاتا تھا۔ کھجور کے بے مثال طبی فوائد ہیں۔ بلغم اور سردی کے اثر سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں کھجور کھانا مفید ہے۔ یہ دماغ کا ضعف مٹاتی ہے اور یادداشت کی کمزوری کا بہترین علاج ہے۔ قلب کو تقویت دیتی ہے اور بدن میں خون کی کمی کو دور کرتی ہے، گردوں کو قوت دیتی ہے، سانس کی تکالیف میں بالعموم اور دمہ میں بالخصوص سود مند ہے۔ کھانسی، بخار اور پیچش میں اس کے استعمال سے افاقہ ہوتا ہے۔ یہ دافع قبض کے ساتھ پیشاب آور بھی ہے۔ قوت باہ کو بڑھانے میں مددگار ہے۔ غرضیکہ کھجور کا استعمال ایک مکمل غذا بھی ہے اور اچھی صحت کے لیے ایک لاجواب ٹانک بھی۔ طب نبوی میں کھجور کی بڑی افادیت بیان کی گئی ہے۔ کھجور کی عالمی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پیداواری ملکوں میں مقامی کھپت کے ماسوا پانچ سے آٹھ لاکھ ٹن کھجور دنیا کے بازاروں میں بھیجی جاتی ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق 1982ء میں کھجور کی عالمی پیداوار چھبیس لاکھ ٹن تھی جس کا 56فیصد حصہ عراق، سعودی عرب، مصر اور ایران میں پیدا کیا گیا۔ عراق کا شہر بصرہ کھجور کی تجارت کے لیے زمانہ قدیم سے بہت مشہور رہا ہے۔ آج بھی سب سے زیادہ کھجوریں اسی بندرگاہ سے برآمد کی جاتی ہیں۔ عراق میں 445اقسام کی کھجوریں پائی جاتی ہیں کھجور کے اعتبار سے عراق پوری دنیا میں سرفہرست ہے۔ کھجور کی تاریخی اور سماجی اہمیت کے ساتھ ساتھ اس کی غذائی اور طبی خصوصیات کی روشنی میں اسے ” نباتاتی نعمت“ کہا جائے تو نہایت مناسب ہوگا۔ اسی نعمت کی بنا پر قرآن مجید میں اس کا کئی بار ذکر ہوا ہے ان لوگوں کے لیے جو عقل و فہم رکھتے ہیں۔ انگور :قرآنی نام : عنب، اعناب (جمع) دیگر نام : Grape (انگریزی)، فرشک، انگور (فارسی)، عنب (عربی )، انگور (اردو، فارسی) قرآن مجید میں انگور کا تذکرہ : 1۔ ۔ البقرہ، آیت : 262 2۔ الانعام، آیت :100 3۔ الرعد، آیت : 4 4۔ النحل، آیت :11 5۔ النحل، آیت : 67 6۔ بنی اسرائیل، آیت : 91 7۔ الکہف، آیت : 32 8۔ المؤمنون، آیت : 19 9۔ یٰس ٓ، آیت : 34 10۔ النباء، آیت : 31، 32 11۔ عبس، آیت : 27، 28 انگور کا شمار قدرت کی بہترین نعمتوں میں کیا جاتا ہے۔ اسی لیے قرآن حکیم میں اس کا ذکر عنب اور اعناب (جمع) کے نام سے مندرجہ بالا گیارہ آیات میں کیا گیا ہے۔ انگور فارسی لفظ ہے جس کا نباتاتی نام Vitis Vinifera ہے۔ اس طرح کھجور کے بعد انگور کی تاریخ بھی پھلوں میں سب سے قدیم مانی جا سکتی ہے۔ انگور سے پیدا کی گئی قسموں (Varieties) کی تعداد آٹھ ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ اس کی کاشت دنیا کے بہت سے ممالک میں عام ہے جن میں سرفہرست ہیں اٹلی، فرانس، روس، اسپین، ترکی، ایران، افغانستان، جاپان، شام، الجیریا، مراکش، فلسطین اور امریکہ۔ انگورکی کل عالمی پیداوار کا نصف یورپ کے ممالک پیدا کرتے ہیں۔ کیمیاوی طور سے انگور، گلوکوز اور فرکٹوزکا بہترین ذریعہ ہے جو اس میں پندرہ سے پچیس فیصد تک پائے جاتے ہیں اس کے سوا Tartaric acid اور Malic acid بھی خاصی مقدار میں ملتے ہیں۔ سوڈیم پوٹاشیم، کیلشیم اور آئرن کی قابل قدر مقدار اس میں موجود ہے جبکہ پروٹین اور چربی برائے نام ہے۔ اس میں ایک بہت اہم کمپاؤنڈ بھی دریافت ہوا ہے جس کو وٹامن ” پی“ (P) کہا گیا ہے۔ یہ کیمیاوی جز ذیابیطس سے پیدا شدہ خون کے بہنے کو روکتا ہے۔ جسم کے ورم اور نسوں کی سوجن کو کم کرتا ہے اور Atherosclerosis کا مؤثر علاج ہے۔ کیمیاوی اجزاء کی بنا پر انگور ایک ایسا لاجواب ثمر ہے جو نہایت ہاضم ہونے کے ساتھ انتہائی فرحت بخش اور Demulcent ہے۔ خون کو صاف کرتا ہے اور جسم میں خون کی مقدار بڑھاتا ہے اور عام جسمانی کمزوری کو دفع کرتا ہے۔ کچے انگور کا رس گلے کی خرابیوں میں مفید سمجھا جاتا ہے۔ اس کی پتیاں اسہال کو روکتی ہیں۔ اس کی بیلوں سے حاصل کیا گیا رس (Sap) جلدکی بیماریوں میں کام میں لایا جا سکتا ہے۔ یورپ میں یہی رس Ophthalmia کا بہترین علاج مانا جاتا ہے۔ انگوری سرکہ معدہ کی خرابیوں، ہیضہ اور قولنج کی اچھی دوا ہے۔