وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُم بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا ۚ فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
اور جن چیزوں کو تم نے اللہ کا شریک بنا رکھا ہے، میں ان سے کیسے ڈر سکتا ہوں جبکہ تم ان چیزوں کو اللہ کا شریک ماننے سے نہیں ڈرتے جن کے بارے میں اس نے تم پر کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے؟ اب اگر تمہارے پاس کوئی علم ہے تو بتاؤ کہ ہم دو فریقوں میں سے کون بے خوف رہنے کا زیادہ مستحق ہے ؟
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ : اور ابراہیم (علیہ السلام) کے خطاب کا رد عمل۔ چاہیے تو یہ تھا کہ واضح قرائن دیکھنے اور ٹھوس دلائل سننے کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم سر تسلیم خم کرتی لیکن انھوں نے اسی روش کو اختیار کیا جو ہمیشہ سے منکرین حق اختیار کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ قیل وقال اور حیلہ سازی سے بڑھ کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ لڑائی، جھگڑے پر اتر آئے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے جھگڑنے کے بجائے فقط اتنا فرمایا کہ کیا تم اللہ تعالیٰ کی ذات یعنی اس کی توحید کے بارے میں مجھ سے جنگ و جدال کرتے ہو؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت سے سرفراز فرمایا ہے۔ ابتدا ہی سے مشرکوں کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ انبیاء ( علیہ السلام) اور موحدین کو نہ صرف اپنی مادی اور افرادی قوت سے ڈراتے ہیں بلکہ اپنے عقیدہ کو سچ ثابت کرنے اور موحدین کو خوفزدہ کرنے کے لیے یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ اگر تم نے اسی طرح ہمارے معبودوں کی مخالفت جاری رکھی تو وہ تمھیں تہس نہس کردیں گے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ موحد کو اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق کوئی تکلیف پہنچے تو مشرک طعنہ دیتے ہیں کہ یہ ہمارے معبودوں کی گستاخی کا نتیجہ ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی مشرکوں نے یہ کہہ کر ڈرایا کہ عنقریب ہمارے معبود تجھے خوفناک گرفت میں لینے والے ہیں۔ جس کے جواب میں جناب ابراہیم (علیہ السلام) نے دو ٹوک انداز میں فرمایا کہ میں تمھارے معبودان باطل سے کس طرح خوف کھا سکتا ہوں۔ حالانکہ تمھاری حالت یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے سے نہیں ڈرتے جبکہ تمھارے پاس اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے کا کوئی جواز اور دلیل نہیں۔ عقیدۂ توحیداپنانے اور اس کے تقاضے پورے کرنے سے انسان دنیا و مافیھا کے خوف سے بے خوف، اس کا دل مطمئن اور اپنے آپ میں امن و سکون محسوس کرتا ہے اس کے مقابلہ میں مشرک پتھر سے تراشے ہوئے بتوں اور اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے مزاروں یہاں تک کہ مزارات میں اگنے والے درختوں کے پتوں سے بھی کانپتا ہے۔ اسی بنا پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے سوال کیا کہ بتاؤ کون سے عقیدے کا حامل امن و سکون کا حق دار ہے اگر تم اس حقیقت کو جانتے ہو ؟ جہاں تک تمھاری بے بنیاد دھمکیوں کا تعلق ہے تو ان کی حقیقت میرا رب اچھی طرح جانتا ہے کیونکہ اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور دنیا میں وہی کچھ رونما ہوتا ہے جو میرا رب چاہتا ہے کیا ان دلائل کے ہوتے ہوئے بھی تم توحیدکو ماننے اور نصیحت حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں ہو۔ (مزید مطالعہ کے لیے ہماری کتاب سیرت ابراہیم (علیہ السلام) ملاحظہ فرمائیں۔) مسائل :1۔ عقیدۂ توحید راسخ ہو تو بندے کو کسی کا کوئی خوف نہیں رہتا۔ 2۔ مشرک بزدل ہوتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کو اپنا شریک نہیں ٹھہرایا۔ 4۔ شرک کرنے والوں کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہوتی۔ 5۔ عقیدۂ توحید ہی امن و سلامتی کا ضامن ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کا علم پوری کائنات پر محیط ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ وسیع علم والا ہے۔ (البقرۃ:115) 2۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے۔ (البقرۃ:29) 3۔ ہمارے رب نے ہر چیز کو اپنے علم کے ذریعہ گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ (الاعراف :89) 4۔ اللہ تعالیٰ کے احاطۂ علم میں ہر چیز ہے۔ (الطلاق :12) شرک کے لیے کوئی دلیل نہیں : 1۔ جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی غیر کو پکارتا ہے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ (المؤمنون :117) 2۔ انھوں نے اللہ کے علاوہ کئی معبود بنالیے ہیں آپ فرمائیں کوئی دلیل لاؤ۔ (الانبیاء :24) 3۔ اس کے سوا کوئی اور بھی الٰہ ہے کوئی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو۔ (النمل :64) 4۔ اے لوگو! تمھارے پاس رب کی طرف سے دلیل آچکی ہے۔ (النساء :175) 5۔ وہ اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جن کی عبادت کے لیے کوئی دلیل نازل نہیں کی گئی۔ ( الحج :71) 6۔ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہوئے نہیں ڈرتے جس کی اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ (الانعام :81)