سورة الانعام - آیت 69

وَمَا عَلَى الَّذِينَ يَتَّقُونَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَيْءٍ وَلَٰكِن ذِكْرَىٰ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ان کے کھاتے میں جو اعمال ہیں ان کی کوئی ذمہ داری پرہیزگاروں پر عائد نہیں ہوتی۔ البتہ نصیحت کردینا ان کا کام ہے، شاید وہ بھی (ایسی باتوں سے) پرہیز کرنے لگیں۔

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : (آیت 69 سے 70) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ : مشرکین اور منکرین اللہ تعالیٰ کی سطوت وقدرت جاننے کے باوجود معبودان باطل پر امیدیں لگائے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو استہزاء کا نشانہ بناتے ہیں اور دین کو کھیل تماشا سمجھتے ہیں۔ ان سے اجتناب کرنے کا حکم دینے کے ساتھ ان کا انجام بتلایا گیا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں ان لوگوں سے اجتناب کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ 1۔ جو دین کو کھیل اور تماشا سمجھتے ہیں۔ 2۔ جو دنیا کے اسباب و وسائل اور ترقی پر غرور کرتے ہیں۔ یہاں اجتناب سے مراد ان لوگوں کے ساتھ قلبی محبت اور ان کے لادینی اشغال میں حصہ دار بننا ہے۔ ایسے لوگوں سے ایک حد تک دور رہتے ہوئے نصیحت کرتے رہنا چاہیے۔ قرآن مجید متعدد مقامات پر یہ حقیقت عیاں کرتا ہے کہ دنیا پرست لوگوں نے دین کو کھیل اور تماشا بنا لیا ہے جس طرح تما شا دل بہلانے کے لیے اور کھیل جسمانی تقویت کے لیے ہوتا ہے یہی سوچ اور وطیرہ دنیا دار کا دین کے بارے میں ہوا کرتا ہے یہ دین کو دنیاوی مفاد، شہرت و منصب اور محض ذہنی سکون کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کے مشاغل سے دور رہتے ہوئے انھیں موقع بموقع نصیحت کرتے رہنا چاہیے اور ان کو یہ حقیقت باور کرانی چاہیے کہ جس دنیا کے جاہ و جلال اور اسباب و وسائل پر تم نازاں خود سپردگی کا انداز اختیار کیے ہوئے ہو۔ مرنے کے بعد یہ سب دھرے کا دھرا رہ جائے گا اور تمھیں ایسی عدالت میں پیش ہونا ہے جہاں کسی ولی کی ولایت، سفارشی کی سفارش اور فدیہ دینے والے کا فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس طرح دنیا کے اسباب ہی نہیں بلکہ جن لوگوں اور معبودان باطل پر بھروسہ کیے ہوئے ہو وہ بھی تمھیں فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے۔ جو لوگ دنیا کے بندے اور برائی کے دھندے میں مبتلا ہو کر موت کی آغوش میں جائیں گے انھیں جہنم میں پینے کے لیے ابلتا ہوا پانی اور اذیّت ناک عذاب دیا جائے گا کیونکہ یہ دنیا کے بندے بن کر توحیدو رسالت کا انکار کرنے والے تھے۔ (عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ عَنْ النَّبِیِّ () فِی قَوْلِہٖ﴿ وَیُسْقٰی مِنْ مَاءٍ صَدِیدٍ یَتَجَرَّعُہُ﴾ قَالَ یُقَرَّبُ إِلَیْہِ فَیَتَکَرَّہُہُ فَإِذَا دَنَا مِنْہُ شُوِیَ وَجْہُہُ وَوَقَعَتْ فَرْوَۃُ رَأْسِہٖ وَإِذَا شَرِبَہُ قَطَّعَ أَمْعَاءَ ہُ حَتَّی خَرَجَ مِنْ دُبُرِہٖ)[ رواہ احمد ] ” حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (ﷺ) نے جہنمیوں کے بارے فرمایا کہ ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا وہ ان کو جلا دے گا۔ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا وہ ان کے قریب کیا جائے گا تو وہ اس کو نا پسند کریں گے۔ جونہی وہ اس کے قریب ہوگا تو اس کا چہرہ جھلس جائے گا۔ اس کے سر کے بال بھی گر جائیں گے اور جب وہ پیے گا تو اس کی آنتیں کٹ جائیں گی یہاں تک کہ وہ اس کی پشت سے نکل جائے گا۔“ ﴿إِنَّ شَجَرَۃَ الزَّقُّوْمِ۔ طَعَامُ الْأَثِیْمِ کَالْمُہْلِ یَغْلِیْ فِی الْبُطُونِ کَغَلْیِ الْحَمِیْمِ۔ خُذُوْہُ فَاعْتِلُوْہُ إِلٰی سَوَآءِ الْجَحِیمِ۔ ثُمَّ صُبُّوا فَوْقَ رَأْسِہٖ مِنْ عَذَابِ الْحَمِیْمِ۔ ذُقْ إِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیزُ الْکَرِیْمُ۔ إِنَّ ہٰذَا مَا کُنْتُمْ بِہِ تَمْتَرُوْنَ﴾ [ الدخان : 43تا50] ” بلاشبہ زقوم کا درخت گنہگار کا کھانا ہوگا۔ جو پگھلے تانبے کی طرح پیٹ میں جوش مارے گا۔ جیسے کھولتا ہوا پانی جوش مارتا ہے۔ پھر حکم ہوگا کہ اسے پکڑ لو پھر اسے گھسیٹتے ہوئے جہنم کے درمیان تک لے جاؤ۔ پھر حکم ہوا کہ کھولتے پانی کا عذاب اس کے سر پر انڈیل دو۔ پھر اسے کہا جائے گا چکھ ! تو بڑا معزز اور شریف بنا پھرتا تھا۔ یہ ہے جس میں تم شک کیا کرتے تھے۔“ مسائل : 1۔ گمراہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے رہنا چاہیے۔ 2۔ دین کو کھیل تماشا سمجھنے والوں کو نصیحت کرنی چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی کار ساز نہیں۔ 4۔ کافروں کے لیے کھولتے ہوئے پانی کا عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن : قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی خیر خواہ نہیں ہوگا : 1۔ وہ اپنے لیے اللہ کے سوا کوئی خیر خواہ اور نہ ہی کوئی مددگار پائیں گے۔ (الاحزاب :17) 2۔ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے، وہ خیر خواہ اور مددگار نہیں پائیں گے۔ (الاحزاب :65) 3۔ نہیں ہے کوئی ان کے لیے اللہ کے سوا خیر خواہ۔ (ھود :20) 4۔ نہیں ہے تمھارے لیے کوئی اللہ کے سوا خیر خواہ اور پھر تم نہیں مدد کیے جاؤ گے۔ (ھود :113) 5۔ نہیں ہے تمھارے لیے اللہ کے سوا کوئی خیر خواہ اور نہ مدد گار۔ ( العنکبوت :22)