وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلَّا أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ
اور پھر انہی میں وہ لوگ بھی ہیں جو ان پڑھ ہیں، اور جہاں تک کتاب الٰہی کا تعلق ہے (خوش اعتقادی کی) آرزوؤں اور ولولوں کے سوا اور کچھ نہیں جانتے، اور محض وہموں گمانوں میں مگن ہیں
فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب کے علماء کی دیکھا دیکھی ان کا ان پڑھ طبقہ یعنی عوام الناس بھی بے بنیاداُمیدیں لگائے ہوئے ہے۔ یاد رہے کہ مذہبی پیشواؤں اور سیاسی راہنماؤں کے منفی اور مثبت اثرات عوام پر ضرور اثر انداز ہوا کرتے ہیں۔ علمائے یہود نے حسب ونسب، مصنوعی تقدُّس اور مذہب کا نام لے کر خود ساختہ رسومات کو عوام کے ذہن پر اس طرح مسلط کردیا تھا جس سے عوام سمجھنے لگے کہ فقط بزرگوں کا احترام‘ علماء کی خدمت اور مذہبی رسومات ہی اصل دین ہے۔ حالانکہ ان تصورات کی کوئی بنیاد نہیں تھی کہ جس اساس پر وہ اپنے آپ کو جنت کا ٹکٹ ہولڈر سمجھتے اور یہ امید لگابیٹھے تھے کہ بخشش کے لیے بزرگوں سے محبت اور ان کے دامن کے ساتھ وابستہ ہونا ہی کافی ہے۔ یہاں ان کے بے بنیاد نظریات کی نفی کرتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ دین صرف جذبات اور خوش کن تصورات کا نام نہیں ہے۔ اس کے لیے تو باطل نظریات کو چھوڑنا‘ بے بنیاد تصورات سے نجات پانا اور جان و مال کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ ( عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ قِرَادٍ {رض}أَنَّ النَّبِیَّ {ﷺ}تَوَضَّأَ یَوْمًا فَجَعَلَ أَصْحَابُہٗ یَتَمَسَّحُوْنَ بِوَضُوْءِہٖ فَقَالَ لَھُمُ النَّبِیُّ {ﷺ}وَمَاحَمَلَکُمْ عَلٰی ھٰذَا قَالُوْا حُبُّ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ فَقَال النَّبِیُّ {ﷺ}مَنْ سَرَّہٗ أَنْ یُّحِبَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ أَوْ یُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ فَلْیَصْدُقْ حَدِیْثَہٗ إِذَا حَدَّثَ وَلْیُؤَدِّ أَمَانَتَہٗ إِذَا اءْتُمِنَ وَلْیُحْسِنْ جَوَارَ مَنْ جَاوَرَہٗ) (بیھقی فی شعب الإیمان۔1533) ” حضرت عبدالرحمن بن ابی قراد {رض}بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم {ﷺ}نے ایک دن وضو کیا۔ آپ {ﷺ}کے اصحاب آپ کے وضو کے پانی کو اپنے جسموں پر ملنے لگے۔ نبی محترم {ﷺ}نے ان سے استفسار فرمایا تم اس طرح کیوں کررہے ہو؟ انہوں نے عرض کی، اللہ اور اس کے رسول کی محبت کی بنا پر۔ نبی کریم {ﷺ}نے فرمایا جس شخص کو یہ بات اچھی لگتی ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرے یا اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کریں تو اسے چاہیے کہ جب بات کرے تو سچ بولے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو امانت کا حق ادا کرے اور اپنے ہمسائیوں سے اچھا برتاؤ کرے۔“ مسائل: 1۔ بے بنیاد خواہشات نجات کا ذریعہ نہیں بن سکتیں۔