وَأَنذِرْ بِهِ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَن يُحْشَرُوا إِلَىٰ رَبِّهِمْ ۙ لَيْسَ لَهُم مِّن دُونِهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ
اور (اے پیغمبر) تم اس وحی کے ذریعے ان لوگوں کو خبردار کرو جو اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ ان کو ان کے پروردگار کے پاس ایسی حالت میں جمع کر کے لایا جائے گا کہ اس کے سوا نہ ان کا کوئی یارومددگار ہوگا، نہ کوئی سفارشی (١٨) تاکہ وہ لوگ تقوی اختیار کرلیں۔
فہم القرآن : (آیت 51 سے 52) ربط کلام : غور و فکر کی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کے لیے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری کا تصور پیدا کرنا ضروری ہے جس کی یہاں تلقین کی گئی ہے۔ یہی عقیدہ اور تصور انسان کو صراط مستقیم کی طرف لاتا ہے۔ قرآن مجید انسان کو اللہ تعالیٰ کی آیات، اس کے گرد و پیش کے ماحول، یہاں تک کہ اپنی ساخت وپرداخت پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ غور و فکر کرنا ایسی قوت ہے جس سے انسان کے بند دماغ کی گرہیں کھل جاتی ہیں اور اس کی آنکھوں پر پڑے ہوئے غفلت کے پردے ہٹ جاتے ہیں جو شخص ان صلاحیتوں سے عاری ہوجائے وہ اپنے سامنے کی بڑی سے بڑی حقیقت کو پہچاننے سے قاصر رہتا ہے۔ منکرین حق دنیاوی مسائل کی گرہیں کھولنے اور ترقی کرنے کے دعوے دار ہونے کے باوجود حقیقی اور دائمی حقائق سے غافل ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ مومن کی نسبت محشر کے میدان سے زیادہ لرزاں و ترساں رہتے ہیں اس لیے نبی (ﷺ) کو حکم ہوا کہ آپ ایسے لوگوں کو ڈرائیں جو اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے سے ڈرتے ہیں اور جن سہاروں پر یہ بھروسہ کیے ہوئے ہیں وہاں کوئی خیر خواہ ان کی خیر خواہی اور کوئی سفارشی ان کی سفارش نہیں کرسکے گا لہٰذا انھیں اپنے باطل عقیدہ کو چھوڑنا اور برے اعمال سے پرہیز کرنا چاہیے۔ مفسرین کے دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ اس آیت میں آپ (ﷺ) کو مخاطب کیا گیا ہے کہ آپ کفار کے مطالبات پر پریشان ہونے اور ان پر مزید صلاحیتیں صرف کرنے کے بجائے ان لوگوں کی تعلیم و تربیت فلاح اور اصلاح کے لیے کوشش کریں اور ڈرائیں جو اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں حاضری کے تصور سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں۔ اور ایسے لوگوں کو اپنے آپ سے ہرگز دور نہ کریں جو اپنے پروردگار کو صبح و شام پکارتے اور ہر وقت اس کے فضل و کرم کے طالب رہتے ہیں ان کے حساب کے بارے میں آپ مسؤل نہیں اور آپ کے حساب میں سے ان کے ذمہ نہیں ہوگا اگر آپ خدا ترس بندوں کو چھوڑ دیں تو آپ کا شمار زیادتی کرنے والوں میں ہوگا۔ تمام مفسرین نے اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اہل مکہ نے ایک دن آپ سے یہ مطالبہ کیا کہ ہم آپ کی محفل میں آنے اور آپ کی بات سمجھنے کے لیے تیار ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ بلال، خبیب (رض) اور اس قسم کے غریب لوگ ہماری آمد کے وقت آپ کی محفل میں نہیں ہونے چاہییں بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے کفار کی ہدایت کی طلب کے جذبے میں آکر ایسا کرنے کا عندیہ دیا تھا اور کچھ لوگوں کا یہ اعتراض بھی تھا کہ آپ کی محفل میں بیٹھنے والے بعض لوگ ایسے ہیں جو اسلام قبول کرنے سے پہلے بڑے بڑے جرائم میں ملوث تھے۔ آپ نے اپنی پاک فطرت کی بنا پر اس چیز کو محسوس کیا جس بنا پر یہ وضاحت نازل ہوئی کہ اے نبی! آپ نے اپنا حساب دینا ہے اور یہ اپنے حساب و کتاب کے بارے میں جواب دہ ہوں گے۔ ماضی کے حوالے سے ان لوگوں کو چھوڑنا ظالموں کا ساتھ دینے کے مترادف ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے پر خلوص ایمان کی وجہ سے ان کے گناہوں کو معاف کردیا ہے۔ (عن عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ (رض) قَالَ أَتَیْتُ النَّبِیَّ (ﷺ) فَقُلْتُ ابْسُطْ یَمِینَکَ فَلْ أُبَایِعْکَ فَبَسَطَ یَمِینَہٗ قَالَ فَقَبَضْتُ یَدِی قَالَ مَا لَکَ یَا عَمْرُو قَالَ قُلْتُ أَرَدْتُّ أَنْ أَشْتَرِطَ قَالَ تَشْتَرِطُ بِمَاذَا قُلْتُ أَنْ یُغْفَرَ لِی قَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ وَأَنَّ الْہِجْرَۃَ تَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہَا وَأَنَّ الْحَجَّ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ وَمَا کَانَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَیَّ مِنْ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) وَلَا أَجَلَّ فِی عَیْنِی مِنْہُ وَمَا کُنْتُ أُطِیقُ أَنْ أَمْلَأَ عَیْنَیَّ مِنْہُ إِجْلَالًا لَہُ وَلَوْ سُئِلْتُ أَنْ أَصِفَہُ مَا أَطَقْتُ لِأَنِّی لَمْ أَکُنْ أَمْلَأُ عَیْنَیَّ مِنْہُ وَلَوْ مُتُّ عَلَی تِلْکَ الْحَالِ لَرَجَوْتُ أَنْ أَکُونَ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ثُمَّ وَلِینَا أَشْیَاءَ مَا أَدْرِی مَا حَالِی فیہَا فَإِذَا أَنَا مُتُّ فَلَا تَصْحَبْنِی نَائِحَۃٌ وَلَا نَارٌ)[ رواہ مسلم : کتاب التفسیر، باب قول اللہ تعالیٰ ﴿وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِين﴾] ” حضرت عمرو بن عاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا اللہ کے رسول (ﷺ) اپنا دایاں ہاتھ آگے کیجئے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں جب آپ نے اپنا دایاں ہاتھ آگے فرمایا تو میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا تب آپ پوچھتے ہیں اے عمرو! کیا ہوا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ایک شرط کے ساتھ بیعت کرتا ہوں ارشاد ہوا کہ وہ کونسی شرط ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میرے گناہ معاف کردیے جائیں۔ فرمایا عمرو تو نہیں جانتا یقیناً اسلام پہلے گناہوں کو ختم کردیتا ہے؟ اسی طرح ہجرت کرنے سے ہجرت سے پہلے کے بھی گناہ ختم ہوجاتے ہیں اور یقیناً حج سے بھی سابقہ غلطیاں معاف ہوجاتی ہیں۔ رسول معظم (ﷺ) سے زیادہ مجھے کوئی محبوب نہ تھا۔ اور نہ ہی میری آنکھ میں آپ (ﷺ) سے زیادہ کسی کا جلال تھا۔ میں انہیں اس جلال کی وجہ سے آنکھ بھر کے نہیں دیکھ سکا۔ اگر مجھ سے کوئی سوال کرے کہ میں آپ (ﷺ) کا کوئی وصف بیان کروں تو اس کی مجھ میں طاقت نہیں ہے۔ کیونکہ میں نے آپ کو کبھی آنکھ بھر کے دیکھا ہی نہیں۔ اگر میں اس حال میں فوت ہوگیا تو میں امید کرتا ہوں کہ میں اہل جنت میں سے ہوں گا۔ پھر اللہ مجھے جنت میں ولی مقرر کر دے تو میں نہیں جانتا وہاں کس حال میں ہوں گا تو جب میں فوت ہوجاؤں تو میرے ساتھ کوئی نوحہ کرنے والی اور آگ نہ لے کے آنا۔“ حضرت عمر و بن عاص (رض) کے ذاتی احساسات : حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب کوئی آدمی فوت ہونے لگتا تو عمرو بن عاص (رض) فرمایا کرتے کہ نہ معلوم لوگ نزع کے وقت کیوں نہیں بتلاتے کہ موت کی کیا کیفیت ہوتی ہے۔ جب عمر و بن عاص (رض) پر نزع کا عالم طاری ہوا تو میں نے ان کی بات یاد کرواتے ہوئے گذارش کی کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب مجھ پر یہ وقت آئے گا تو میں بتلاؤں گا کہ موت کس طرح آتی ہے۔ اس کے جواب میں عمرو بن عاص (رض) صرف اتنا بتلاسکے کہ بھتیجے بس میں اتنا ہی بیان کرسکتا ہوں کہ مجھے نزع کا عالم یوں محسوس ہونے لگا ہے جیسے کسی نے احد پہاڑ میرے سینے پر رکھ دیا ہو اور پھر زارو قطار رونے لگے۔ اسی موقعہ پر ہی انہوں نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ کو وصیت کی تھی کہ میری قبر پر منکر نکیر کے سوالات تک کھڑے رہنا۔ تاکہ میں تسکین پاؤں حالانکہ وہ جانتے تھے کہ مرنے والے کی کوئی مدد نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس کا دنیا والوں کے ساتھ کوئی تعلق ہوتا ہے۔“ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو آزمانے اور ان کی صلاحیتوں کو نکھار نے کے لیے بے شمار آزمائشیں بنائی ہیں۔ ان میں غربت اور امارت، شہرت اور گمنامی، حاکم اور محکوم ہونا بھی آزمائش کا ایک طریقہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو دولت و ثروت، شہرت و ناموری اقتدار اور اختیار دے کر آزماتا ہے کہ یہ لوگ نعمتوں سے محروم انسانوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں اگر نعمتیں پانے کے بعد اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے اور اس کی مخلوق کے ساتھ عاجزی اور خیر خواہی کا رویہ اختیار کرتے ہیں تو انھیں مزید نعمتیں دیتے ہوئے آخرت میں اجر وثواب سے نوازا جائے گا۔ اگر صاحب حیثیت لوگ خدا کے نافرمان اور اس کی مخلوق کے لیے ظالم ثابت ہوتے ہیں تو انھیں اذیت ناک سزاؤں سے دو چار ہونا پڑے گا۔ اسی طرح ہی نعمتوں سے محروم لوگوں کو آزمایا جاتا ہے کہ وہ دنیاوی نعمتوں سے محروم ہو کر صبر و شکر کا رویہ اختیار کرتے ہیں تو انھیں قیامت کے دن عظیم اجر و ثواب عطا ہوگا۔ اور اگر یہ لوگ سرکشی اور نافرمانی کا رویہ اختیار کرتے ہیں تو انھیں اس کی سزا اور مزید محرومیوں سے واسطہ پڑے گا۔ اہل مکہ غریب صحابہ (رض) پر یہ طعن بھی کرتے تھے کیا یہ لوگ ہیں؟ جن پہ اللہ نے احسان کیا ہے کہ جن کو پیٹ پالنے کے لیے خوراک اور تن ڈھانپنے کے لیے پوشاک بھی میسر نہیں۔ یہاں ایک طرف کفار کو بین السطور سرزنش کی جارہی ہے کہ تم خدا کی نعمتیں پانے کے باوجود سرکش اور باغی ہو لہٰذا اپنا انجام سوچ لو۔ تمہارے مقابلے میں نعمتوں سے محروم لوگ اس کسمپرسی کے عالم میں بھی اپنے رب کے فرمانبردار یا تابع فرمان اور شکر گزار ہیں۔ اس طرح شکر گزار بندوں کو تسلی اور ان کی قدر افزائی کی گئی ہے۔ اگلی آیات میں غریب مومنین کو یہ کہہ کر اعزاز بخشا گیا ہے کہ اے نبی ! جب یہ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوں تو آپ ان کو سلام کرنے میں پہل کیا کریں۔ مسائل :1۔ لوگوں کو اللہ کے حضور پیش ہونے کا خو ف دلاتے رہنا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی مددگار نہیں ہے۔ 3۔ خوشحالی اور تنگدستی اللہ کی طرف سے آزمائش ہے۔ 4۔ انسان کو ہر حال میں اپنے رب کا صابر و شاکر رہنا چاہیے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ اپنے فرمانبردار لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن :اللہ تعالیٰ کا ہی شکر ادا کرنا چاہے : 1۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ (البقرۃ:172) 2۔ اللہ تعالیٰ شکر کرنے والے لوگوں کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے۔ (الاعراف :58) 3۔ اللہ تعالیٰ شکر کرنے والے کو زیادہ عطا کرتا ہے۔ (ابراہیم :7) 4۔ اللہ کے تھوڑے بندے ہی شکر گزار ہوتے ہیں۔ (سباء:13) 5۔ شکر کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے۔ (الزمر :7) 6۔ اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو بہتر جزا دیتا ہے۔ (القمر :35) 7۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا شکر ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ (لقمان :12)