سورة الانعام - آیت 25

وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ ۖ وَجَعَلْنَا عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَن يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا ۚ وَإِن يَرَوْا كُلَّ آيَةٍ لَّا يُؤْمِنُوا بِهَا ۚ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوكَ يُجَادِلُونَكَ يَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو تمہاری بات کان لگا کر سنتے ہیں، مگر (چونکہ یہ سننا طلب حق کے بجائے ضد پر اڑے رہنے کے لیے ہوتا ہے، اس لیے) ہم نے ان کے دلوں پر ایسے پردے ڈال دییے ہیں کہ وہ اس کو سمجھتے نہیں ہیں، اور ان کے کانوں میں بہرا پن پیدا کردیا ہے۔ اور اگر وہ ایک ایک کر کے ساری نشانیاں دیکھ لیں تب بھی وہ ان پر ایمان نہیں لائیں گے۔ انتہا یہ ہے کہ جب تمہارے پاس جھگڑا کرنے کے لیے آتے ہیں تو یہ کافر لوگ یوں کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) پچھلے سلوں کی داستانوں کے سوا کچھ نہیں۔

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : (آیت 25 سے 26) ربط کلام : کفارکا شہادت حق سے انکار، مشرکوں کے شرک اور منافقوں کی منافقت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو سمجھنے اور ہدایت کے لیے سننے کے بجائے کہتے ہیں کہ یہ ہماری سماعت پر ایک بوجھ ہیں۔ اور ہم انہیں پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں سمجھتے ہیں۔ قرآن مجید نے ہدایت پانے اور اس کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے یہ اصول بیان کیا ہے کہ سننے والا پوری توجہ دل کی حاضری اور ہدایت پانے کے لیے بات سنے تو یقیناً اللہ تعالیٰ اسے ہدایت سے بہرہ مند کرتا ہے۔ ﴿إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیدٌ﴾[ قٓ :37] ” اس میں اس شخص کے لیے عبرت ہے جو دل رکھتا ہو اور حضور قلب کے ساتھ متوجہ ہو کر بات سنے۔“ لیکن منکرین حق کی شروع سے ہی یہ عادت خبیثہ ہے کہ وہ سچی بات قبول کرنا تو درکنار اس کا سننا ہی ان کے لیے گرانی کا باعث ہوا کرتا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کفار نے یہاں تک معاندانہ رویہ اختیار کیا کہ جب حضرت نوح (علیہ السلام) توحید کی دعوت دیتے توکفار اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال کر اپنے چہرے چھپاتے ہوئے ان سے دور بھاگ جاتے۔ کفار کے دلوں پر مہریں ثبت ہونا : ﴿صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لَا یَرْجِعُونَ [ البقرۃ :18] ” ایسے لوگ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں یہ لوٹنے والے نہیں۔“ ﴿قَالَ رَبِّ إِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلًا وَّنَہَارًا۔ فَلَمْ یَزِدْہُمْ دُعَآئِ یْ إِلَّا فِرَارًا۔ وَإِنِّیْ کُلَّمَا دَعَوْتُہُمْ لِتَغْفِرَ لَہُمْ جَعَلُوْا أَصَابِعَہُمْ فِیْٓ اٰذَانِہِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِیَابَہُمْ وَأَصَرُّوْا وَاسْتَکْبَرُوا اسْتِکْبَارًا﴾ [ نوح : 5تا7] ” نوح نے عرض کیا اے میرے رب ! میں نے اپنی قوم کو دن رات دعوت دی۔ مگر میری دعوت سے ان کے فرار میں اضافہ ہوا۔ میں نے جب بھی انہیں بلایا تاکہ تو انہیں معاف کر دے تو انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں۔ اور اپنے کپڑے اپنے منہ پر ڈال لیے اور اپنی روش پر اڑ گئے اور تکبر کی انتہا کردی۔“ یہی رویہ منکرین حق نے نبی اکرم (ﷺ) کے ساتھ اختیار کیا جب انھیں غور کے ساتھ قرآن سننے کی طرف توجہ دلائی جاتی تو وہ بظاہر غور کے ساتھ سنتے لیکن حقیقت میں عدم توجہ اختیار کیے رکھتے اور آخر میں کہتے یہ باتیں ہمارے فہم و ادراک سے باہر اور ہماری قوت سماعت پر بوجھ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس طرح جو حکم بھی ان کے پاس آتا وہ اس کا مسلسل انکار کیے رکھتے۔ جس کی بنا پر نبی (ﷺ) کو بتلایا گیا کہ ان کے سامنے ایک سے ایک بڑھ کر نشانی پیش کی جائے یہ لوگ ایمان لانے کی بجائے آپ کے ساتھ بحث و تکرار میں آگے ہی بڑھتے جائیں گے کیونکہ یہ غور و فکر کرنے کے بجائے کہتے ہیں کہ یہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جنھیں زیب داستاں کے لیے بیان کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ نہ صرف ہدایت سے دور ہیں بلکہ دوسروں کی ہدایت کے لیے بھی رکاوٹ بن چکے ہیں یہی ان کی ہلاکت کا پیش خیمہ ہے۔ حقیقتاً یہ ہدایت یافتہ لوگوں کو نقصان پہنچانے کے بجائے اپنے آپ کو ہلاکت کے گڑھے میں ڈال رہے ہیں جس حقیقت کو سمجھنے کے لیے یہ تیار نہیں ہیں۔ جہاں تک قرآن مجید پر قصہ، کہانیاں بیان کرنے کا الزام ہے اس میں ذرہ برابر بھی صداقت نہیں کیونکہ دو تین واقعات کو چھوڑ کر کوئی ایسا واقعہ نہیں جسے قرآن مجید نے ابتدا سے آخر تک ایک ہی موقعہ اور مقام پر ذکر کیا ہو۔ قرآن مجید کوئی تاریخ کی کتاب نہیں کہ جس میں رطب و یا بس اور داستان گوئی کا انداز اختیار کیا گیا ہو۔ اس میں سب سے زیادہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا ذکر پایا جاتا ہے۔ جسے ایک ہی جگہ بیان کرنے کے بجائے موقع اور اس کے محل کے مطابق مختلف مقامات اور الفاظ میں بیان کیا گیا ہے تاکہ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا اسے قصہ کہانی سمجھنے کے بجائے نصیحت و عبرت کے طور پر پڑھے اور ہر قدم پر اس کی رہنمائی کا اہتمام ہو سکے۔ مسائل : 1۔ کافر لوگ قرآن مجید پر طعن و تشنیع کرتے ہیں۔ 2۔ کافر نبی مکرم (ﷺ) سے جھگڑتے تھے۔ 3۔ کافر اپنے ساتھ دوسرے لوگوں کو بھی ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔ 4۔ دین اسلام کے بارے میں ہر زہ سرائی کرنے والے اپنے آپ کو ہی ہلاکت میں ڈالتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : کفار نے قرآن مجید کو پہلے لوگوں کے قصّے قرار دیا : 1۔ کفار قرآن کو پہلے لوگوں کی کہانیاں قرار دیتے ہیں۔ (الانعام :25) 2۔ جب ان پر اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں یہ پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں۔ (المطففین :13) 3۔ جب کفار سے کہا جاتا ہے کہ تمھارے رب نے کیا نازل کیا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ (النحل :24) 4۔ جب ان پر ہماری آیات پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ (القلم :15) 5۔ انہوں نے کہا یہ تو سراسر پہلے لوگوں کی قصے کہانیاں لکھی ہوئی ہیں۔ (الفرقان :5)