سورة الانعام - آیت 20

الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمُ ۘ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ ان کو (یعنی خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو) اس طرح پہچانتے ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں (پھر بھی) جن لوگوں نے اپنی جانوں کے لیے گھاٹے کا سودا کر رکھا ہے، وہ اہمان نہیں لاتے۔

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن: ربط کلام : توحید و رسالت پر آفاقی دلائل دینے اور اللہ تعالیٰ کی شہادت کبریٰ کے بعد اہل کتاب کے زندہ ضمیر اور مصنف مزاج لوگوں کی شہادت کا تذکرہ۔ اہل کتاب کے اس اعتراف کے بارے میں مفسرین نے دو مفہوم لیے ہیں۔ امام رازی (رض) اور ان کے ہمنوا مفسرین کا خیال ہے کہ ” ہ“ کی ضمیر نبی (ﷺ) کی ذات وصفات اور آپ کی رسالت کے متعلق ہے۔ جیسا کہ سورۃ البقرۃ آیت ٤٦ میں رسالت کے بارے میں اہل کتاب کا ذکر کیا گیا ہے۔ مولانا مودودی (رض) اور کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ یہاں ” ھو“ کی ضمیر توحید کے متعلق ہے کہ جس طرح اہل کتاب نبی (ﷺ) کی ذات اور رسالت کو اپنے بیٹوں سے بڑھ کر جانتے تھے۔ اسی طرح وہ اپنے ضمیر میں اللہ تعالیٰ اور اس کی توحید کو اچھی طرح جانتے اور سمجھتے تھے۔ قرآن مجید کے سیاق و سباق سے دونوں مفاہیم کی تائید ہوتی ہے۔ لہٰذا جس نے توحید و رسالت میں سے کسی ایک کا اعتقاداً یا عملاً انکار کیا، وہ لوگ نقصان پائیں گے۔ حضرت صفیہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میرے والد حیی بن اخطب اور چچا ابو یاسر صبح کے وقت رسول محترم (ﷺ) کی خدمت میں پہنچ کر اسلام کے بارے میں مذاکرات کرتے ہیں۔ انہیں یقین ہوگیا کہ حقیقتاً آپ نبی آخر الزماں (ﷺ) ہیں۔ جب آپ سے گفتگو کے بعد مغرب کے وقت واپس آئے تو نہایت تھکے ماندے دکھائی دے رہے تھے۔ چچا ابو یاسر میرے والد سے پوچھتے ہیں :أَھُوَ ھُوَ ؟” کیا یہی وہ نبی ہے جس کا تذکرہ تورات وانجیل میں پایا جاتا ہے؟“ والد : کیوں نہیں یہ وہی رسول ہے۔ ابو یاسر :أَتَعْرِفُہٗ وَتُثَبِّتُہٗ ؟ ” کیا واقعی تو اسے پہچانتا ہے؟“ والد : ہاں میں اچھی طرح پہچانتاہوں۔ ابویاسر : فَمَافِیْ نَفْسِکَ مِنْہُ ؟ ” پھر آپ کا کیا ارادہ ہے؟“ والد : عَدَاوَۃٌ وَاللّٰہِ مَابَقِیْتُ ” کہ اللہ کی قسم! جب تک زندہ ہوں عداوت کا اظہار کرتا رہوں گا“۔ [ ابن ہشام : شہادۃ عن صفیۃ] امام رازی نے اس ضمن میں عجب واقعہ ذکر کیا ہے لکھتے ہیں کہ جنگ بدر کے موقع پر اخنس بن شریق نے ابو جہل کو لوگوں سے الگ کرکے پوچھا کہ اے ابو الحکم ! یہ بتائیں کہ محمد (ﷺ) اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے یا سچا ؟ ابو جہل نے کہا کہ ابن شریق تجھ پر نہایت ہی افسوس کہ اس میں کیا شک ہے کہ محمد (ﷺ) واقعی اللہ کا سچا رسول ہے۔ اس لیے کہ اس نے آج تک کسی فرد کے ساتھ جھوٹ نہیں بولا۔ لیکن ہماری مخالفت کی وجہ یہ ہے کہ پہلے ہی بڑے بڑے مناصب اور اعزاز۔ ان کے خاندان کے پاس ہیں۔ جنگ کے موقع پر پرچم اٹھانا، کعبہ کی دربانی اور نگہبانی، لوگوں کوز م زم پلانا اور یہ سب اعزازات ان کے پاس ہیں۔ اگر ہم نے اس کی نبوت کو تسلیم کرلیا تو ہمارے پاس کیا رہ جائے گا۔ مسائل : 1۔ اہل کتاب نبی مکرم (ﷺ) کو پہچاننے کے باوجود ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ 2۔ توحید و رسالت کا انکار کرنا اپنے آپ کو نقصان میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ تفسیر بالقرآن : یہود و نصاریٰ رسول اللہ (ﷺ) کو پہچانتے ہیں : 1۔ اہل کتاب آپ کو پہچانتے تھے۔ (البقرۃ:146) 2۔ انھوں نے نبی کو پہچان لیا ہے۔ (المؤمنون :69) 3۔ اہل کتاب نبی آخر الزمان (ﷺ) کو اپنے بیٹوں کی طرح پہچانتے ہیں۔ (البقرۃ:146) 4۔ جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی وہ آپ کو پہچانتے ہیں۔ (الانعام :20)