قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ
کہو : کون سی چیز ایسی ہے جو (کسی بات کی) گواہی دینے کے لیے سب سے اعلی درجے کی ہو ؟ کہو : اللہ (اور وہی) میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے۔ اور مجھ پر یہ قرآن وحی کے طور پر اس لیے نازل کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعے میں تمہیں ڈراؤں، اور ان سب کو بھی جنہیں یہ قرآن پہنچے۔ کیا سچ مچ تم یہ گواہی دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ اور بھی معبود ہیں؟ کہہ دو کہ : میں تو ایسی گواہی نہیں دوں گا۔ کہہ دو کہ : وہ تو صرف ایک خدا ہے اور جن جن چیزوں کو تم اس کی خدائی میں شریک ٹھہراتے ہو، میں ان سب سے بیزار ہوں۔
فہم القرآن : ربط کلام : سابقہ آیات میں نبی (ﷺ) کی نبوت پر کفار کے اعتراضات کا جواب، اس کے دلائل اور اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید اور قوت وسطوت ثابت کرنے کے آفاقی اور طبعی دلائل دیے ہیں۔ جو شہادت کا درجہ رکھتے ہیں یاد رہے اللہ تعالیٰ کی شہادت سے بڑھ کر کسی کی شہادت نہیں ہو سکتی۔ توحید کی گواہی سب سے پہلی اور سب سے بڑی گواہی ہے۔ اب ان دلائل پر شہادت قائم کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شہادت سے بڑھ کر کوئی شہادت نہیں ہو سکتی۔ اس نے ہر چیز کو پیدا کیا۔ وہی اس کی ابتدا اور انتہا کو جانتا ہے۔ وہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا اور اس پر اقتدار اور اختیار رکھتا ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ اس کی شہادت سے بڑھ کر کسی اور کی شہادت ٹھوس اور بڑی نہیں ہوسکتی۔ یاد رہے شہادت کی دو بڑی اقسام ہیں۔ عینی اور یقینی شہادت : عینی شہادت کا معنی ہے کہ واقعہ شہادت دینے والے کے سامنے پیش ہوا ہو اور یقینی شہادت کا مفہوم یہ ہے کہ اس کے اتنے ٹھوس دلائل ہوں کہ کوئی اس کی تردید نہ کرسکے۔ اللہ تعالیٰ کی شہادت ان دونوں اصولوں کی بنیاد پر کامل اور اکمل حیثیت رکھتی ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی شہادت کو شہادت اکبر کا درجہ حاصل ہے۔ لہٰذا نبی (ﷺ) کو حکم ہوا کہ آپ اپنے اور ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کو شاہد کے طور پر پیش فرمائیں کہ اسی نے آپ پر یہ قرآن وحی فرمایا تاکہ آپ ہر اس شخص کو اس کے برے اعمال کے انجام سے ڈرائیں جس تک قرآن کا پیغام پہنچجائے۔ پھر فرمایا کہ ان سے پوچھیے کیا تم ان دلائل کے باوجود شہادت دیتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور بھی معبود ہوسکتا ہے ؟ اس سوال کے بعد آپ کو حکم ہوا کہ میں یہ کہنے اور شہادت دینے کے لیے تیار نہیں ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور بھی معبود ہوسکتا ہے۔ بلکہ آپ یہ اعلان فرمائیں کہ وہ ایک ہی الٰہ ہے اور میں تمھارے شرک سے برأت کا اعلان کرتا ہوں۔ اس آیت میں توحید کے اثبات کے ساتھ یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ امت مسلمہ کو اللہ تعالیٰ کا پیغام یعنی قرآن مجید لوگوں تک پہنچانے کی ہر ممکن کو شش کرنی چاہیے تاکہ غیر مسلموں پر توحید و رسالت کی شہادت قائم ہو سکے۔ مسائل :1۔ اللہ تعالیٰ کی گواہی ہر گواہی سے بڑی ہے۔ 2۔ قرآن مجیدلوگوں پر اللہ تعالیٰ کی شہادت ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شرک سے مبرا ہے۔ تفسیر بالقرآن :اللہ تعالیٰ کی شہادت سب سے بڑی اور معتبر ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر گواہ ہے۔ (النساء :33) 2۔ اللہ تعالیٰ کی گواہی کافی ہے۔ (الفتح :28) 3۔ اللہ کی گواہی سے کسی کی گواہی بڑی نہیں ہے۔ (الانعام :19) 4۔ اللہ لوگوں پر گواہ ہے۔ (آل عمران :98) 5۔ نبی پر جو کچھ نازل ہو اللہ تعالیٰ اس پر گواہ ہے۔ (النساء :166)