وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادَّارَأْتُمْ فِيهَا ۖ وَاللَّهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ
اور پھر (غور کرو وہ واقعہ) جب تم نے (یعنی تمہاری قوم نے) ایک جان ہلاک کردی تھی، اور اس کی نسبت آپس میں جھگڑتے اور ایک دوسرے پر الزام لگاتے تھے اور جو بات تم چھپانی چاہتے تھے خدا اسے آشکارا کردینے والا تھا
فہم القرآن : (آیت 72 سے 73) ربط کلام : بنی اسرائیل کی شریعت کے بارے میں عادات اور حیلہ سازیوں کے ذکر کے بعداصل واقعہ کا ذکر۔ چچاکی دولت پر قبضہ کرنے کے لیے رات کی تاریکیوں میں بھتیجوں نے چچا کو قتل کرکے اس کی لاش اپنے مخالفوں کے محلہ میں پھینک دی۔ جب صبح ہوئی تو خود ہی مدعی بن کر بے گناہوں کو اس قتل کا ذمہ دار ٹھہرانے لگے۔ قریب تھا کہ اس کے رد عمل میں مزید قتل و غارت شروع ہوجاتی لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے قاتلوں کا سراغ لگانے کے لیے ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا حکم رکھا کہ ایک گائے ذبح کرکے اس کے گوشت کا ایک ٹکڑا مقتول کی لاش کو لگایا جائے اس طرح مردہ زندہ ہو کر اپنے قاتلوں کی نشاندہی کردے گا۔ متعدد سوالات کے جواب میں مجبورًاانہوں نے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے گائے ذبح کر کے اس کے گوشت کا ٹکڑا مقتول کی لاش کو لگایا۔ مقتول نے زندہ ہو کر اپنے قاتل کا نام بتلایا جس سے یہ لوگ مزید قتل و غارت سے محفوظ ہوئے اور مجرموں کو سزا ہوئی۔ اس حکم کی تعمیل پر ان کے گائے پرستی کے تصور کو کاری ضرب لگی جس سے اس بات کا مشاہدہ کر وایا گیا کہ گائے مشکل کشا اور معبود نہیں ہے جو اپنی جان نہیں بچا سکتی وہ مشکل کشا کس طرح ہو سکتی ہے اور یہ بھی واضح ہوا کہ جس طرح اس مقتول نے زندہ ہو کر قتل کی واردات اور اپنے قاتل کا نام بتلایا ہے ایسے ہی سب انسان قبروں سے زندہ ہو کر اپنے اپنے اعمال کا اقرار کریں گے اور بالآخر ہر کسی کو اس کے عمل کے مطابق جزاء وسزا ملے گی۔ مسائل: 1-مقتول کا زندہ ہونا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ ہے جو مرنے کے بعد زندہ ہونے پر واضح دلیل ہے۔ نوٹ : موت کے بعد زندہ ہونے کے ثبوت ” البقرۃ آیت 259“ کے تحت تفسیر بالقرآن میں ملاحظہ فرمائیں۔