مَّا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَكْتُمُونَ
رسول پر سوائے تبلیغ کرنے کے کوئی اور ذمہ داری نہیں ہے۔ اور جو کچھ تم کھلے بندوں کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو، اللہ ان سب باتوں کو جانتا ہے۔
فہم القرآن : (آیت 99 سے 100) ربط کلام : رسول کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ لوگوں کو حق وباطل اور اچھے، برے سے آگاہ کرے لوگوں کا فرض یہ ہے کہ وہ برائی کے رواج اور اسکی کثرت سے مرعوب ہونے کے بجائے رسول کی اطاعت کریں اسی میں کامیابی ہے۔ اس جاری خطاب کی آیت نمبر 92میں یہ مضمون بیان ہوا تھا کہ ہمارے رسول کا منصب لوگوں تک پیغام پہنچانا ہے جبراً منوانا نہیں۔ یہاں پھر فرمایا ہے کہ رسول کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ کے پیغام ٹھیک ٹھیک لوگوں تک پہنچانا ہے۔ اس کا کام لوگوں کے پیچھے پیچھے رہنا اور ان کی خلوتوں کی نگرانی کرنا نہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ جو کچھ تم چھپاتے یا ظاہر کرتے ہو وہ تمھارے ایک ایک لمحہ اور کام کو جانتا ہے۔ رسول کا کام فقط یہ ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے برے بھلے اور نیک و بد کی تمیز واضح کر دے، بے شک برائی کتنی غالب اور لوگوں کی نظر میں کتنی بھلی معلوم ہوتی ہو۔ رسول کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ لوگوں کو خوف خدا سے آگاہ کرے تاکہ صاحب دانش اللہ تعالیٰ سے ڈریں۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا ہی دانائی کی علامت اور کامیابی کا راستہ ہے۔ جہاں تک خبیث اور طیب یعنی اچھے اور برے اور نیک اور بد کا تعلق ہے یہ فرق ہر چیز اور کام میں پایا جاتا ہے۔ ہر چیز مفید بھی ہوتی ہے اور اس میں نقصان اور ضرر بھی موجود ہوتا ہے۔ انسانوں میں بھی نیک و بد پائے جاتے ہیں اس طرح کچھ کام دنیا اور آخرت کے لحاظ سے مفیدہوتے ہیں جبکہ کئی کام آدمی کے لیے دنیا میں نقصان اور آخرت میں خسارے کا باعث ہیں اور یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی کام دنیا کے لحاظ سے بظاہر فائدہ مند ہو لیکن آخرت کے اعتبار سے دائمی نقصان کا باعث ہو حقیقی عقل اور خدا خوفی کا تقاضا ہے کہ آدمی وہی کام کرے جو دنیا کے مقابلے میں آخرت کے لحاظ سے اس کے لیے بہتر ہو۔ لہٰذا ہر انسان کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا اور معاف کردینے والا، نہایت مہربان ہے۔ اسی کو کائنات کے عظیم دانشور نبی محترم (ﷺ) نے یوں بیان فرمایا ہے : (عَنْ أَبِی یَعْلٰی شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) الْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَہُ ہَوَاہَا ثُمَّ تَمَنَّی عَلَی اللّٰہِ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزہد، باب ذکر الموت والاستعداد لہ] ” حضرت ابو یعلی شداد بن اوس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا عقلمند وہ ہے جو اپنے آپ کو پہچانتا ہے اور مرنے کے بعد فائدہ دینے والے اعمال سر انجام دیتا ہے اور نادان وہ ہے جس نے اپنے آپ کو اپنے نفس کے پیچھے لگایا اس کے باوجود وہ اللہ تعالیٰ سے تمنا کرے۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ تمام ظاہری و پوشیدہ چیزوں کا علم رکھنے والا ہے۔ 2۔ اللہ کے فرمانبردار اور نافرمان کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔ 3۔ برائی کا چلن خواہ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو وہ گناہ ہی رہتا ہے۔ 4۔ تقویٰ اختیار کرنے میں ہی کامیابی ہے۔ تفسیر بالقرآن : فلاح پانے والے حضرات : 1۔ نمازوں میں خشوع کرنے والے مومن فلاح پا گئے۔ (المومنون : 1تا11) 2۔ جس نے اپنے آپ کو پاک کرلیا وہ فلاح پا گیا۔ (الاعلیٰ:14) 3۔ اللہ سے ڈرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (البقرہ :189) 4۔ اللہ کا قرب تلاش کرو اور اس کے راستہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (المائدۃ:35) 5۔ تم اللہ کی نعمتوں کو یاد رکھو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (الاعراف :69) 6۔ اللہ کو بہت یاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (الجمعۃ :10) 7۔ اپنے رب کی ہدایت پر چلنے والے ہی فلاح پانے والے ہیں۔ (لقمان : 5، البقرۃ:5) 8۔ جو نفس کی بخیلی سے بچ گیا وہ فلاح پا گیا۔ (التغابن : 16۔ الحشر :9)